عجب دستورِ دنیا ہے ، عجب اس کا تقاضا ہے| شادی پر اشعار

معاشری کی بیٹیوں بہنوں کی شادی، منگنی یا نکاح کے حوالے سے مخلف افراد کے مختلف تکلیف دہ رویوں پر نقد کرتی ایک نظم

1 23

 

عجب دستورِ دنیا ہے ، عجب اس کا تقاضا ہے
عجب ترجیح رشتوں پر، عجب ہر سو تماشا ہے

عجب ہے رنگ اور دولت کے بل پہ رشتوں کی بارش
نہ سیرت کو کوئی دیکھے نہ ایماں کی کوئی خواہش
ترازو پر ہے بھاری جو وہ اک دولت کا سکہ ہے

کوئی دستک نہیں در پہ، عجب ٹھہرا فسانہ ہے
ہر اک بیٹی جواں ہو کر بڑھاپے کو روانہ ہے
کبھی سے منتظر آنکھوں کا اک خاموش چہرہ ہے

میں پاؤں حور دنیا میں ، ملے اک حور کا خیمہ
نہ سمجھوتہ ہو دولت پر، نہ کم ہو حسن کا جلوہ
جوانوں کو تو دنیا میں ہی جنت کی تمنا ہے

کھنکتے ہیں جہاں پر سونے کے کنگن خیالوں میں
وہیں خاموش چاندی بھی اتر آئی ہے بالوں میں
بس اک امید پر قائم قفس میں اک پرندہ ہے

جوانی میں جو اپنے واسطے بہتر کے تھے خواہاں
وہی بیٹی کا بہتر ہمسفر پانے کو سرگرداں
مکافات عمل سے کس قدر لبریز دنیا ہے

نصیب اچھے ہر اک بیٹی کے اے میرے اِلہ کرنا
ہر ایک آنگن کو پھولوں، کلیوں کی خوشیاں عطا کرنا
ہر اک مالی دعا تجھ سے میرے مالک یہ کرتا ہے

عجب دستورِ دنیا ہے ، عجب اس کا تقاضا ہے
عجب ترجیح رشتوں پر، عجب ہر سو تماشا ہے

 

شاعری : سلیم اللہ صفدر

اگر آپ  ماں کی شان میں کلام کے ساتھ ساتھ بیٹی کی عظمت پر شاعری پڑھنا چاہیں تو یہ لازمی دیکھیں  

1 تبصرہ
  1. […] آپ مزید شادی پر اشعار پڑھنا چاہتے ہین تو یہ لازمی […]

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.