میری ماں مجھ کو ہر لمحہ ستاتی ہیں تیری یادیں
صبح ہو شام ہو مجھ کو رولاتی ہیں تیری یادیں
بہت بے چین کرتا ہے مجھے شب بھر غمِ فرقت
ذرا سی آنکھ لگنے پر جگاتی ہیں تیری یادیں
میں جب قرآن پڑھتا ہوں محمد یاد آتے ہیں
حدیثِ پاک سنتا ہوں ، محمد یاد آتے ہیں
مؤذن کی اذاں میں جب ، محمد نام آتا ہے
جواب اس کا میں دیتا ہوں ، محمد یاد آتے ہیں
قدم جما کر دکھاؤں گا میں، یہ سر اٹھا کر دکھاؤں گا میں
سسکتی انسانیت کے درد اور غم کو اک دن مٹاؤں گا میں
نہ بھیک مانگوں گا میں کسی سے، نہ دن گزاروں گا بے بسی سے
خود اپنے ہاتھوں کما کے کھاؤں گا اور سب کو کھلاؤں گا میں
نہیں رکھوں گا…
اے مولا درد سارے چھین کر خوشیاں عطا کر دے
میرے بے چین اس دل کو سکوں سے آشنا کر دے
کرم کی بارشیں برسا میری روح کے بیاباں پر
کہ دھل جائے گناہ کی دھند، روشن ہو ہر اک منظر
نظر آئے تیری قدرت مجھے ہر چیز کے اندر
میرے دل کے نہاں خانوں میں…
تیرا ہر خواب حقیقت ہو، یہ جنت ہے کیا؟
تجھ کو ہر لمحے میں راحت ہو، یہ جنت ہے کیا؟
تجھ سے سب پیار کا اظہار کریں دنیا میں
تجھ سے ہر ایک کو الفت ہو، یہ جنت ہے کیا؟
غم چھپا کر مسکراتا ہوں سدا غمگین ہوں
سب کو خوشیاں دے کے بھی میں خود رہا غمگین ہوں
دردِ دل سے کس طرح تم کو کروں میں آشنا
دور مجھ سے وہ ہوا؛ تھا آشنا غمگین ہوں
کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں
کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں
لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
کون کرتا ہے نصیحت پہ عمل ، کوئی نہیں