مجھے خون کچھ اور بہانا پڑے گا
مجھے پھر سے، مطلب نہانا پڑے گا
گزشتہ کئی روز سے وہ خفا ہے
دل و جان کہہ کر منانا پڑے گا
عنایت جو بھی کی مرے دل میں رہ کر
کبھی تو اسے آزمانا پڑے گا
وہ کہتا ہے تصویر کا کیا کرو گے
جدائی میں رکھ کر ستانا پڑے گا
وہ کیسے وچاروں کی گٹھڑی پڑی ہے
نحوست کی ماری، جلانا پڑے گا
رحیمیٓ بہانے کوئی اس سے سیکھے
کسی روز اس کو بلانا پڑے گا
مجھے خون کچھ اور بہانا پڑے گا
مجھے پھر سے، مطلب نہانا پڑے گا
زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے|غزلیہ اردو شاعری
اگر آپ محبت پر مزید اردو شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں