معصوم سی جانیں جو کسی کے لئے نقصان دہ تو نہیں لیکن ان کے ہونے سے کسی کا انگن معظر و روشن رہتا ہے اور جن کے نہ ہونے سے اداس اور ویران۔ لیکن کچھ ایسے درندے بھی ہیں جو ان معصوم جانوں کے بھی دشمن ہیں اور ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اپنے خبث باطن کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور ہر انسان اپنی بیٹیوں سے محبت کرتا ہے لیکن یہ درندے ان کو بیٹی نہیں سمجھتے اور ہر لمحہ ان کے شکار کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ نظم انہین بیٹیوں کی محبت اور ان کا درد محسوس کر کے لکھی گئی ہے۔
دشت ِبے یقینی ہے، منزلوں سے گم راہیں
اک درندوں کا جنگل اور معصوم سی جانیں
جلتی ریت پر چلتے ان نوخیز ذہنوں کو
یہ سراب سے لہجے کب تلک یوں بھٹکائیں
پھول کلیوں پر رقصاں کچھ ہوس کے شعلے ہیں
باغبان کی آنکھیں کاش آج کھل جائیں…..!
بیٹیوں کے سکھ جن کو راحت ِدل و جاں ہیں
بیٹیوں کے غم آخر کس طرح وہ سہہ پائیں؟
کیسے جانور ہیں جو ان کو نوچتے ہوں گے
آنگنوں کی کلیاں ہیں زندگی کی مسکانیں
زندہ دفن کرتے تھے بچیوں کو جو کل تک
زخم ِعصر ِحاضر کو کیسے وہ سمجھ پائیں
بے اولاد کر دے تو مولا ان درندوں کو
لوگ ان کی تاریخیں پھر کبھی نہ دہرائیں
دشت ِبے یقینی ہے، منزلوں سے گم راہیں
اک درندوں کا جنگل اور معصوم سی جانیں
If you want to read more poetry on daughters please check
آگر آپ ماں کی محبت پر شاعری یا بیٹی پر اشعار پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ ضرور دیکھیں