ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے
بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے
کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو
تلاش دوستاں تھی ہم صف اعدا میں آنکلے
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں
مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں
طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے
رینگتے رہتے ہیں پنچھی بال و پر کی آس میں
کھا گئی سپنے غریبی اڑ گیا رنگِ شباب
در بدر پھرتے رہے ہم اپنے گھر کی آس میں…
ایسا کر دے گا ویسا کر دےگا
ہم کو یہ خوف آدھا کردےگا
میں اسے خود کو سونپ آیا ہوں
اب وہ جو بھی کرے گا کر دے گا
ایسا لگتا ہے بارِ عشق ہمیں
وقت سے پہلے بوڑھا کر دےگا
انکی آنکھوں کا ایک آنسو بھی
سارے دریا کو میٹھا کر دےگا
پھر…
مری توجہ میں جس روز کچھ کمی ہوگی
یقین کر کہ تری جان پر بنی ہوگی
ہمارے گھر جو اندھیرے ہیں،کون مانے گا ؟
ہماری چاند ستاروں سے دوستی ہوگی !
تمھارے جیسا حسیں روۓ گا مرے غم میں!
تو میرے مرنے پہ مجھ کو بہت خوشی ہوگی
جو دِلسَتاں ہوں…