کس احتیاط سے پھر آئینے سجاتے رہے | طویل اردو غزل
Urdu poetry beautiful | Urdu poetry heart touching
کس احتیاط سے پھر آئینے سجاتے رہے
تمام عمر جو چہرے یہاں چھپاتے رہے
یہ بات لکھ کے کسی ڈائری میں رکھ لیں آپ
ہمیں وہ لوگ بھی روئیں گے جو رلاتے رہے
عجیب قسم کی عادات غم ذدوں میں تھیں
خموش رہ کے فسانے کئی سناتے رہے
نظر بھی آئیں تو ہو جائیں غم دوا اپنے
وہ چارہ ساز کہاں لیکن آتے جاتے رہے
ہمیں وہ لوگ ہیں دیوارِ جیل خانہ پر
تراشِ سنگ سے جو تتلیاں بناتے رہے
تجھے زمیں پہ فلک کی تلاش ہے زاہد
ہمیں فلک پہ زمیں کے خیال آتے رہے
نظر میں رکھا ہوا ہے کسی نظر نے ہمیں
بس اس خیال میں ہم خود کو آزماتے رہے
ہمارے شیخ وطن کے مفاد کی خاطر
کسی کو آب کسی کو لہو پلاتے رہے
ڈرے ہوئے تھے چراغانِ طاق تجھ سے صبا
ہم ایسے پیڑ کہ خوش ہو کے لہلہاتے رہے
لہو ہمارا بہا صرف بہرِ خاکِ وطن
امیرِِ وقت سے انعام آپ پاتے رہے
تمھیں تھی لالہِ صحرائی کی تمنا سو
دوانے جوش میں پتھر اٹھا کے لاتے رہے
دماغ والوں نے دولت کا انتخاب کیا
تو عزتیں ترے شوریدہ سر کماتے رہے
دیارِ اہلِ شریعت میں تاجرانِ زباں
کشیدہ خوابوں کی بھی بولیاں لگاتے رہے
تماشا بین کہ محظوظ ہوتے جاتے تھے
تماشا ساز کہ کچھ لاٹھیاں گھماتے رہے
کسی کا کچا گھڑا غرق آب کر ڈالا
کسی کا خون بھی تم شِیر میں بہاتے رہے
کوئی بتائے تو دنیائے بحر و بر کے غم
دلِ زیاں میں ہی آ آ کے کیوں سماتے رہے
دوائے وصل ملے فرقتوں کے ماروں کو
تمام عمر جو اپنا جگر جلاتے رہے
اُدھر خطاب سے واعظ کے حشر برپا تھا
اِدھر فقیر مگر بانسری بجاتے رہے
شبِ وصال کہ گزری اسی تسلسل میں
گئے سمے کی سبھی داستاں سناتے رہے
ملا خطاب کا موقع کلاہ والوں کو
ہم ایسے لوگ فقط تالیاں بجاتے رہے
پھلوں سے لطف اٹھاتے ہوئے یہ بات بھی سوچ
کدھر ہیں لوگ یہاں پیڑ جو لگاتے رہے
تری نگاہِ تلطف پہ ہے نثار قرار
بھلا ہو تیرا مری دھڑکنیں بڑھاتے رہے
کیا کیا تھے ستم گر ستم تو کیا کیا کچھ
مگر فقیر کہ ہر بار مسکراتے رہے
نہ قید و بندِ محبت سے چھوٹ پائے تھے
میاں خرید کے پنچھی سو ہم اڑاتے رہے
ہماری ذات پہ حق کچھ نہیں عنایت کا
انھیں پہ ہو کہ جو یاں گردنیں جھکاتے رہے
خدا کے نام پہ پھیلا نہ پائے ہاتھ کبھی
دکھا کے زخمِ جگر اپنا بھیک پاتے رہے
غمِ جہان سے مطلب کہاں تھا مستوں کو
کہ اپنی موج میں بس نظم گنگناتے رہے
نہ ہو سکا جو کوئی کام دوستو سے مرے
مری امید کے محلوں کو آ کے ڈھاتے رہے
برے نصیب کہ ہر بار اپنے سر ٹھہرا
وگرنہ آپ کو الزام سے بچاتے رہے
بدل سکا نہ یہ موسم کی فرقتوں کا سرور
ہوائیں چلتی رہیں تارے جگمگاتے رہے
چراغِ بزمِ عدو کو جلا جلا کے عزیز
کمال یافتہ لوگوں کے دل بجھاتے رہے
پہنچ کے منزلِ مقصود پر ہوا محسوس
تمام راہ میں اعضاء تھرتھراتے رہے
فراغ پاتے تو اک پل کو دیکھتے آدر
وہ کون لوگ ہیں احسان جو جتاتے رہے
کس احتیاط سے پھر آئینے سجاتے رہے
تمام عمر جو چہرے یہاں چھپاتے رہے