ہمارے حکمران ایسے نہیں ہوں گے….مئی سے مئی تک
ماضی کے آئینے میں مستقبل کا دھندلا مگر دلخراش عکس
مئی سے مئی تک
الہی ہم پر رحم کر اور اپنی پناہ ہم پر دراز کر دے۔ الہی ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران ایسے نہیں ہوں گے۔ مگر کیا کریں اہل غرناطہ بھی اسی گمان میں مارے گئے تھے کہ ہمارے حکمران ایسے نہیں ہوں گے۔ جیسا ان کے دلوں میں دھڑکا تھا ویسا ہی دھڑکا ہمارے دلوں میں بھی ہے، مگر اس دھڑکے پرجیسے اہل غرناطہ کی امید، فرڈینڈ اور ازابیلا پر تھی ویسے ہی ہماری آس اولاد ازابیلا پر ہے۔
مجھے مئی 1486 کا وہ نامعلوم دن یاد آ رہا ہے جس کی تاریخ اس خط کے ٹکڑے جوڑنے کے باوجود سامنے نہیں آ سکی جس میں ابو عبداللہ نے ملکہ ازبیلا کو غرناطہ سونپنے کی تجویز دی تھی۔ جون 1986 میں شاہ فرڈینیڈ اور ازابیلا کی جانب سے ایک اور دستاویز ابو عبد اللہ کے نام لکھی گئی جس میں جس میں ابو عبد اللہ کے زیر انتظام تمام علاقوں کو تحفظ دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔
یایھا الناس! این المفر؟
لیکن، ابو عبد اللہ کی غرناطہ سے بے دخلی ے ساتھ ہی اسے اس جاگیر سے بھی بے دخل کر دیا گیا جو اسے تین سالوں کے لیے لکھ کر دے دی گئی تھی اور رہےعام مسلمان؟ عام مسلمانوں کے لیے تو بھاگنے کا رستہ ہی نہیں تھا۔ ان کے سامنے سمندر تھااور پیچھے دشمن۔ وہ نا تو بھاگ سکے اور نا ہی مقابلہ کر سکے۔ گروہوں کے گروہ قتل ہوئے۔ اور جو بچ رہے وہ سمندر برد ہو گئے ۔ میرے ذہن میں یکم مئی 711 کے روشن دن میں طارق بن زیاد کے الفاظ گونج رہے ہیں۔ جب اس نے انہی سواحل پر کھڑے ہو کر مٹھی بھر سپاہ سے کہا تھا۔
یایھا الناس! این المفر؟
اے لوگو! فرار ہونے کا کوئی رستہ نہیں۔ تمہارے سامنے دشمن ہے اور پیچھے سمندر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے پاس یا تو اخلاص ہے یا صبر۔
اور اس کے بعد بارہ ہزار کی سپاہ اندلس کے طول و عرض میں چھا گئی۔ مگر، ساڑھے آٹھ سو سال بعد سقوط اندلس کے وقت مسلمانان اندلس کے پاس نا صبر تھا نا اخلاص اور نا بھاگنے کا کوئی رستہ۔
تحریر: تحریم افروز
اگر آپ مزید اسلامی تاریخ کے واقعات پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں