تاریخ اسلامیعبداللہ حبیب

الحمراء | اسلامی تاریخ کے درخشاں باب اندلس میں

ایک نوجوان کی سرزمین اندلس کی سیر کا احوال کہ جو اپنے آباء و اجداد کی تاریخ سے بالکل واقف نہیں تھا ۔اس نے تاریخ اسلام کے درخشاں باب اندلس میں کیاکیا دیکھا ۔۔۔۔؟
الحمراء | اسلامی تاریخ کے درخشاں باب اندلس میں

وہ کیا گردوں تھا۔۔؟ (قسط سوم)

وہ کیا گردوں تھا۔۔؟(قصہ سوم) ۔ میں پڑھیے اندلس کے مسلمان سلاطین کی تعمیر شدہ ایک شاندار اور ہم مسلمانوں کے اوجِ کمال کی مظہر الحمراء کا احوال

“الحمراء اندلس کے مسلم سلاطین کی تعمیر شدہ ایک شاندار اور ہم مسلمانوں کے اوجِ کمال کی مظہر ہے”۔ فرحان صاحب نے عاشر کوبتایا۔ عاشر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔  کہ وہ اپنے اسلاف کی ایک شاندار نشانی کو دیکھ رہاہے ۔ یہاں کئی سیاح موجودتھےجودنیابھر سے صرف الحمراء کی سیر کرنے آئے تھے۔ سبھی ٹکٹ لےکر اندر داخل ہوئے اس موقع پر سبھی کو ایک شرمندگی کا احساس بھی ہوا ۔

وہ اپنےآباء کی عمارتوں میںبھی ان غیرمسلموں کو رقم ادا کرکے جاپارہےہیں۔ اندر جابجا درخت اور ہریالی تھی جو الحمراء کی خوبصورتی کوچارچاند لگارہی تھی۔ یہ ایک وسیع عمارت تھی جو سنگ َ مرمر کے ستونوں پر کھڑی تھی ۔ “یہ قصرالحمراء مسلم سلطان محمد خامس نے1354سے1391کے درمیان تعمیرکیاتھا” فرحان صاحب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔عاشر الحمراء کی خوبصورتی میں کھوچکا تھا۔ وہ یہاں کی درو دیوار کو بڑے غور سے دیکھ رہاتھا ۔زرا آگے بڑھے تو دیواروں پر جابجا“لاغالب اللہ”کوفی خط میں نقش تھا  ۔عاشرپر تو جیسے سکتہ ہوگیاکیونکہ اب اسے یقین ہوچلاتھا کہ واقعی یہ اسپین بھی مسلمانوں کے تحت رہاہے۔

دیواروں پر جابجالاغالب اللہ کوفی خط میں نقش تھا
دیواروں پر جابجالاغالب اللہ کوفی خط میں نقش تھا

الحمراء میں عہد رفتہ کے نقوش

وہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا اسے مسلم عہد کی یادگار اور ایسی کئی اشیاء دکھائی دیں کہ جن کو دیکھ کر اسے جہاں اپنے آباء پر فخر محسوس ہوا وہی آج کے مسلم کو دیکھ کر وہ شرمندہ ہوگیا۔ اس نے دیکھا جہاں یورپی باشندے بڑے شوق سے الحمراء کے درودیوار دیکھ رہے تھے۔  ان کےلیے تو یہ محض ایک سیر تھی مگر عاشر کےلیےفقط یہ ایک سیر نہیں تھی بلکہ وہ یہاں اپنی عظمتِ فتہ کے نقوش تلاش کررہاتھا۔ اس کےلیے اس عمارت میں مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی شاندار یادیں وابستہ تھیں ۔اس کا دل چاہ رہاتھا کہ وہ ان دیواروں سے جاکر لپٹ جائے اور برملا اعلان کرے کہ “اے الحمراء تیرے پرانے نگہبان لوٹ آئے ہیں ،تیرے اصل مالک لوٹ آئے ہیں”۔عاشر ان خیالات اور سوچوں میںغرق ندیم صاحب اور فرحان صاحب سے کافی دور نکل آیا تھا۔

اس عمارت میں مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی شاندار یادیں وابستہ تھیں
اس عمارت میں مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی شاندار یادیں وابستہ تھیں

چرچ جو کبھی مسجد تھے۔۔۔!

اس نے ان کو ادھر ادھردیکھا تو وہ اسے قصر کی ایک کھڑکی کے پاس کھڑے نظرآئے وہ تیز قدموں سے ان کی جانب چل دیا۔یہاں کھڑکی سے پورا غرناطہ شہر نظر آرہاتھا۔ یہ بڑا ہی دل ربا منظر پیش کرتا ہے۔ “آپ کو یہ سامنے بلند وبالا چرچ نظر آرہے ہیں “فرحان صاحب نے ندیم صاحب اور عاشر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ “ہاں نظر آرہاہے”ندیم صاحب نے جواب دیا “کوئی دور تھا کہ جب یہ تمام چرچ مسجد ہوتے تھے اور یہاں گھنٹیوں کی بجائے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔  “فرحان صاحب نے مغموم لہجے میں کہا۔

الحمراء میں اقبالؒ کے برمحل اشعار

“ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری بادِ سحر میںـ”

ندیم صاحب کی زبان سے بے ساختہ اقبال کے اشعار نکلےجنہیں سن کر عاشر اور فرحان صاحب دونوں ہی رنجیدہ ہوگئے۔”غڑناطہ کے آخری حاکم ابو عبداللہ تھا جس نے اس قصر الحمراء کی چابیاں از خود عیسائی بادشاہ فرڈی ننڈ کو پیش کی تھیں “۔فرحان صاحب نے بتایا ۔”جب یہ سب مسلمانوں کے پاس تھا تو ان سے آخر چھن کیسے گیا”اس بار عاشر نے سوال کیا تھا”بیٹا جب کوئی بھی قوم غلط روش اختیار کرلیتی ہے اور اپنے اصل مقاصد سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے توزوال کا شکا ر ہوجاتی ہے اور بالکل ایسے ہی جب مسلمانوں نے اپنے اصل مقاصد کو بھلادیااور دین سے بے راہ روی اختیار کی توسب کچھ ہمارے ہاتھ سے چھن گیا”فرحان صاحب نے عاشر کا جواب دیا۔اس کے بعد سب الحمراء کے بقیہ حصوں کی سیر میں مصروف ہوگئے۔

یہاں گھنٹیوں کی بجائے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں 
یہاں گھنٹیوں کی بجائے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں

الحمراء سے باہر نکلے تو سب کی اندرونی کیفیت مختلف تھی ۔اب ان کی اگلی منزل قرطبہ تھی ۔سب گاڑی میں سوار ہوئے اور قرطبہ کی جانب روانہ ہوگئے۔وہ غرناطہ شہر سے اب باہر نکل رہے تھےاس دوران جب کوئی پرانہ اسکول یاچرچ آتا تو بتاتے جاتے کہ یہ مسلم عہد میں مدرسہ تھا اور یہ مسجد تھی۔یہ سن کر سب غمگین ہوجاتے ۔

مصنف:عبداللہ حبیب

اسلامی اندلس کے قدم بہ قدم احوال بیان کرتی تاریخ سیریز وہ کیا گردوں تھا۔۔۔؟ کی بقیہ اقساط پڑھنے کےلیے کلک کریں۔

وہ کیا گردوں تھا۔۔؟ (قسط اول)

وہ کیا گردوں تھا۔۔؟ (قسط دوم)

 

Shares:
7 Comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *