شاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا کے سامنے مسلمانوں کا آخری بادشاہ اندلس کو الوداع کرتے ہوئے۔۔۔۔ ! سقوط اندلس پر ایک مصور کے ہاتھوں بنائی گئی دلخراش تصویر
شاید الرندی اس قوم کی کیمسٹری نہیں سمجھتے تھے۔ یا پھر وہ قوم مسلم پر تازیانہ برسا رہے تھے۔ مگر الرندی جیسا شاعر اس قدر کج کیاف؟ ناممکن!بہر حال ابھی اندلس کے سقوط کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ شام مصر اور ترکی کے سفیر، خیر سگالی کے پیغامات لے ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈی نینڈ کے دربار میں شرف بازیابی کے منتظر تھے۔
سقوط اندلس یاد ہی نہ رہا
سقوط اندلس، جو شاعر کے نزدیک بھلایا نہیں جا سکتا تھا حیران کن طور پر ہمیں یاد ہی نا رہا اور ہمارے حصے میں شاعر مشرق کی کچھ نظمیں، نسیم حجازی اور دوسرے ناول نگاروں کے کچھ ناول یا پھر کچھ سفر نامے ہی آ سکے۔ ان سب کے باوجود ہم اس میں سے غیرت و حمیت کا ایک ماشہ بھی برآمد نا کر سکے۔
1492 کا سال اقوام مسلم کے لیے خصوصا خون آشامی کا سال رہا ہے۔ اسی سال اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ اقتدارکا سورج غروب ہوا۔ 2 جنوری 1492 کی شام مسلمانوں کے لیے بہت بھاری تھی۔ یہ سقوط کی پہلی شام تھی جو اسلام پسندوں پر بہت بھاری تھی۔ غرناطہ کی کشادہ مسجدیں عیسائی فوجوں اور گھوڑوں کے پیشاب سے متعفن ہو رہی تھیں۔ مسجدوں کے صحن ان کے ساز و سامان سے بھرے پڑے تھے۔
3 لاکھ سے زائد کتب کے جلنے سے آسمان پر جو سیاہی پھیلی وہ مسلمانوں کے بخت کی سیاہی سے کسی طور کم نہیں تھی
اس شام غرناطہ میں اذان کی بجائے یا تو مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دیتی تھی یا پھر عیسائی فوجیوں کے شراب کے نشے میں دھت ہنکارے۔ آزامائش ایسی کڑی کہ اعلان ہوتے تھے کہ عیسائی ہو جاو اور جان کی امان پا لو۔ ذلت ایسی کہ راہ چلتے مسلمانوں کو عیسائی ہو جانے پر مبارکباد پیش کی جاتی اور بے آبروئی ایسی کہ زمین پھٹے یا آسمان شق ہو جائے۔ مسلمان لڑکیاں، برہنہ سر، بے ردا، ننگے پاؤں اور نیم برہنہ جسم لیے اپنی شرم گاہوں پر ہاتھ رکھے غرناطہ کے گلی کوچوں میں بھاگتی پھرتی تھیں۔ اور عیسائیوں کے غول گھوڑوں پر پر سوار جب ان کے سروں پر پہنچ جاتے منہ بھر بھر کے شراب کی کلیاں ان پر کرتے اور ان کی عزتیں تار تار کرتے۔
بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ مسلمان نوجوان اور بزرگ چوکوں میں قطاریں بنا کر اپنی ڈاڑھیاں کٹوانے کا انتظار کرتے۔ بالآخر، ذلت، رسوائی، بے چارگی ان کا مقدر بن گئی۔ اور تباہی و بربادی ان پر مسلط ہو گئی۔ جو مسلمان جان بچانے کے لیے عیسائی ہو گئے تو انہیں یہ کہہ کر قتل کر دیا گیا کہ یہ تو ہمارے بھائی ہیں ان کے ساتھ ہم جو مرضی سلوک کریں۔
غرناطہ میں جگہ جگہ آگ روشن تھی۔ جس کا ایندھن زندہ مسلمان، قرآن کے نایاب نسخے اور نادر کتابیں تھیں۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ میراث کو نذر آتش کیا جا رہا تھا۔ عبد الرحمان الداخل کے قائم کردہ کتب خانے کی 3 لاکھ سے زائد کتب کے جلنے سے آسمان پر جو سیاہی پھیلی وہ مسلمانوں کے بخت کی سیاہی سے کسی طور کم نہیں تھی۔
عبد الرحمان الداخل کے قائم کردہ کتب خانے کی 3 لاکھ سے زائد کتب کے جلنے سے آسمان پر جو سیاہی پھیلی وہ مسلمانوں کے بخت کی سیاہی سے کسی طور کم نہیں تھی۔
وہ عجیب صبح بہار تھی
ایک طرف غرناطہ کے مسلمانوں کی عزت، آبرو اور ناموس لٹ رہی تھی تو دوسری طرف ابو عبد اللہ اپنے امراء و رفقا کے ہمراہ، قصر الحمراء کی چابیاں ازابیلا اور فرڈینیڈ کے ہوالے کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔
امریکہ کی دریافت کرنے والا کرسٹوفر کولمبس، غرناطہ کی حوالگی کی مجلس میں شریک تھا۔ وہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے۔
"آج میں نے موجودہ سال 1492 کی دو جنوری کو دیکھا کہ الحمراء کے میناروں پر ملکہ ازابیلا کا نشان طاقت کے زور پر لہرا دیا گیا اور پھر مسلمان بادشاہ ابو عبد للہ کو شہر کی فصیل کے دروازے پر ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈینینڈ کے ہاتھ چومتے ہوئے دیکھا۔
[…] کے طول و عرض میں چھا گئی۔ مگر، ساڑھے آٹھ سو سال بعد سقوط اندلس کے وقت مسلمانان اندلس کے پاس نا صبر تھا نا اخلاص اور نا […]