ہو عشق میں کسی کا نہ یا رب خراب خون
بہتر ہے آدمی کا ہو وقت شباب خون
پہلے تو تھی تمیز پہ دور_جدید میں
احساس مٹ چکا ہے سو یکساں ہے آب، خون
اک دوست نے جو اس سے مرا تذکرہ کیا
آنکھوں میں اس کی آ گیا زیر نقاب خون
شائد ہوا ہے قتل کسی بے قصور کا
اک جیسے آج لگ رہے ہیں آفتاب ، خون
بھوکے نے رزق چن کے کیا ترک_عزم_عشق
اک ہاتھ میں تھا نان تو اک میں ، گلاب، خون
میں پل میں اہتمام کروں گا جنابِ من
کیا لیں گے کچھ بتائیں تو، سگرٹ ،شراب، خون
اعجاز دل سے درد جو لکھے تو یہ کھلاپی
تے ہیں شعر بھی مرے عزت مآب خون
ہو عشق میں کسی کا نہ یا رب خراب خون
بہتر ہے آدمی کا ہو وقت شباب خون
اگر آپ مزید اردو غزلیہ شاعری پڑھنا چاہتے ہین تو یہ لازمی دیکھیں
احسن اعجاز