بچے جو مفلسی سے ہم تو عاشقی سے مر گئے
کراچی کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر منہال زاہد سخی کے قلم سے اداس دل کی دکھی شاعری
بچے جو مفلسی سے ہم تو عاشقی سے مر گئے
یوں ہم شریف لوگ اپنی سادگی سے مر گئے
چہار سمت تیرگی بچھی قدم قدم پہ تھی
چراغ جب جلے تو خود ہی روشنی سے مر گئے
پرند پھول پیڑ کچھ نہیں دِکھا ، اجاڑ بس
جو تیرے شہر آگئے تو خامشی سے مر گئے
دراز عمر پا چکے ہیں مطلبی ، ذلیل لوگ
مگر اک ہم ، حقیقتوں کی بندگی سے مر گئے
ہاں ٹھیک تم لے آئے آئنہ ، مگر جو اہلِ شعر
غزل کو لکھتے ، نظم پڑھتے ، شاعری سے مر گئے ؟
دل و دماغ جنگِ عشق پہ نہیں تھے متفق
دلیر اپنے نفس کی سپہ گری سے مر گئے
مکینِ دشت خشک حلق پر جئے جو تھے جئے
فلک سے بارشیں ہوی تو سب نمی سے مر گئے
چند اک بچے رہے دکھوں سے ، جو نہ مر سکے ، سبھی
عجیب تر ہے "اپنی موت آپ” ہی سے مر گئے
تری وجہ سے کائنات میں یہ حادثہ ہوا
بہار ، گل ، مہک ، احساسِ کمتری سے مر گئے
بچے جو مفلسی سے ہم تو عاشقی سے مر گئے
یوں ہم شریف لوگ اپنی سادگی سے مر گئے
اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں