کہیں چاہتوں کی تمازتیں کہیں کلفتوں کا بیاں نہیں

0 12

کہیں چاہتوں کی تمازتیں کہیں کلفتوں کا بیاں نہیں

انہی راستوں میں ہے زندگی جہاں منزلوں کا نشاں نہیں

 

نئے ہمسفر جو ہیں تیز تر سنو راستوں کے پیام ہیں

یہاں ہجر کی ہیں اذیتیں یہاں فاصلے بھی عیاں نہیں

 

تری جستجو میں رواں ہوا تہہ خاک سے بھی گزر گیا

مگر آڑ ہے یہ وصال میں, تو یہاں نہیں میں وہاں نہیں

 

یہ روایتوں کے وہ دیپ ہیں جو سماج نے یوں جلادیے

ترا آستاں تو دمک اٹھا مری تیرگی کا گماں نہیں

 

جہاں رک گئے وہی آشیاں جہاں چل پڑے وہی راستہ

یہ طیور کی ہے جلی ادا کہ جہان بھر میں مکاں نہیں

 

ابھی کج فہم وہ حبیبؔ تھا جوچراغ لے کے نکل پڑا

اسے کیا خبر یہ وہ رات ہے جہاں روشنی کو اماں نہیں

 

کہیں چاہتوں کی تمازتیں کہیں کلفتوں کا بیاں نہیں

انہی راستوں میں ہے زندگی جہاں منزلوں کا نشاں نہیں

 

شاعری : عبداللہ حبیب

 

اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں 

 

 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.