اغیار منافق تو کبھی یار منافق ۔۔۔ آئے ہیں مرے سامنے ہر بار منافق
منافقت اور منافق دوست پر شاعری
اغیار منافق تو کبھی یار منافق
آئے ہیں مرے سامنے ہر بار منافق
اُس قوم کا انجام تو معلوم ہے سب کو
جس قوم کے لوگوں کا ہو سردار منافق
دیتے ہیں مرے گھر کی خبر اور کسی کو
نکلے مرے گھر کے در و دیوار منافق
کمزور کیے جاتا ہے رشتوں کی عمارت
دشمن سے برا ہوتا ہے اک یار منافق
چھے سات مرے یار ہیں اور ان میں بھی احمد
چھانوں تو نکل آئیں گے دو چار منافق
اغیار منافق تو کبھی یار منافق
آئے ہیں مرے سامنے ہر بار منافق
اگر آپ دوست کے متعلق مزید شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں