اگر تم میری باتوں کو نہ پھیلاتے تو بہتر تھا | دوست کے لئے اداس شاعری
دو دوستوں کے درمیان تلخ روئیوں ، غلط فہمیوں سے جنم لینے والی دوری کی عکاسی کرتی ایک اداس نظم
اگر تم میری باتوں کو نہ پھیلاتے تو بہتر تھا
مجھے خلوت میں میرے دوست سمجھاتے تو بہتر تھا
محبت کی لگی کھیتی کو کیوں برباد کر ڈالا؟
اسی کھیتی کے دہقاں کو جو بلواتے تو بہتر تھا
رقیبانہ کہا اس نے تو تم تسلیم کر بیٹھے؟
اگر وہ شخص تم مجھ سے جو ملواتے تو بہتر تھا
دیارِ غیر میں گھاٸل ہوا تھا دوست میں اک دن
مسیحا بن کے گر اس دن چلے آتے تو بہتر تھا
میں تو نادان تھا، کم فہم تھا، ضدی، ہٹیلا تھا
خرمندی سے تم مجھ کو جو منواتے تو بہتر تھا
محبت، دوستی، رشتے بہت نایاب ہوتے ہیں
وفا ہوتی ہے کیا؟ گر تم سمجھ پاتے تو بہتر تھا
کسی درویش سے ملتے تو شاید بات بن جاتی
غلط فہمی کو گر تم دل میں دفناتے تو بہتر تھا
نوکیلے تیز خنجر سے مجھے خود قتل کردیتے
مگر غیروں سے یوں مجھ کو نہ دھمکاتے تو بہتر تھا
دلِ بسمل کو سمجھایا، نہیں مانا ، نہیں سمجھا
اگر” ہمدرد“ تم اس دل کو بہلاتے تو بہتر تھا
اگر تم میری باتوں کو نہ پھیلاتے تو بہتر تھا
مجھے خلوت میں میرے دوست سمجھاتے تو بہتر تھا
شاعری: ڈاکٹر شاکراللّٰہ ہمدرد