نیک دل خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزيز

عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے کچھ حالات زندگی ۔۔۔۔ ابو علی عبدالوکیل صاحب کے قلم سے

0 110

سیبوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور امیر المومنین یہ سیب مسلمانوں میں تقسیم کرتے چلے جا رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے بچے نے ایک سیب اٹھایا اور کھانے لگا۔ امیر المومنین نے یہ سیب بچے کے منہ سے چھین لیا۔ بچہ روتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور اپنی ماں سے جا کر یہ ماجرا کہہ سنایا۔ ماں نے بازار سے سیب منگوایا اور بچے کے ہاتھ میں دے دیا،

اتنے میں امیر المومنین گھر میں داخل ہوئے، انہیں سیب کی خوشبو محسوس ہوئی تو اپنی بیوی سے پوچھا کہ کوئی سرکاری سیب تو گھر نہیں آیا؟ بیوی نے کہا ”نہیں“ بیوی نے بچے کے متعلق شکایت کی۔ اس پر امیر المومنین نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نے یہ سیب بچے کے منہ سے نہیں چھینا تھا بلکہ اپنے دل سے چھینا تھا۔ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ تھے اور یہ چھوٹا سا بچہ جس کے منہ سے انہوں نے سیب چھینا تھا، ان کا اپنا پیارا بیٹا تھا۔

حضرت عمر بن عبد العزيز رحمتہ اللہ علیہ  اموی دور میں سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد خلیفہ بنے مگر ایسے خلیفہ کہ سچائی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح انصاف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح حیا میں حضرت عثمان رضی اللہ کی طرح زہد و پاک بازی میں حضرت علی ؓکی مثل تھے، ان کے پاکیزہ اخلاق کا وصف سب سے نمایاں تھا!

انہوں نے خلیفہ بنتے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا!
”لوگو!“ جو شخص اللہ کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت کرنافرض نہیں ہے. اور جو شخص اللہ کی اطاعت کرے تواس کی اطاعت کرنافرض ہوجاتی ہے۔
جب تک میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرنا. اور جب میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم میری اصلاح کرنا کیونکہ تم پر میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔

جب میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم میری اصلاح کرنا

وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ سرکاری خزانے سے معمولی سا فائدہ اٹھانا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔ رات کو جب تک حکومت کا کام کرتے تھے اس وقت تک سرکاری شمع جلاتے تھے. اور جب اپنا کوئی ذاتی کام شروع کرتے تو اپنا چراغ جلا لیتے اور سرکاری شمع گل کر دیتے.

ایک مرتبہ آپ کے ملازم نے آپ کے لیے وضو کا پانی سرکاری باورچی خانے میں گرم کر لیا۔ آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اتنی لکڑی خرید کر باورچی خانے میں داخل کرا دی آپ اس معاملے میں اتنی احتیاط سے کام لیتے تھے کہ ایک بار گوشت کا ایک ٹکڑا بھوننے کا حکم دیا۔ غلام اسی باورچی خانے سے یہ ٹکڑا بھون لایا۔ آپ نے اسے ہاتھ تک نہ لگایا اور غلام سے کہا کہ تم ہی کھا لو یہ میری قسمت کا نہ تھا۔ آپ اتنی زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے کہ ایک دفعہ سرکاری خزانے سے خوشبو آپ کے سامنے لائی گئی تو آپ نے ناک بند کر لی تا کہ اس کی خوشبو ناک میں جانے نہ پائے۔ لوگوں نے عرض کیا ”امیر المومنین“ اس کی خوشبو سونگھنے میں حرج کیا ہے؟“ فرمایا ”خوشبو کا نفع یہی تو ہے“

حکمران کی مثال ایک بازار کی سی ہے جس میں وہی چیزیں لائی جاتی ہیں جن کی بازار میں مانگ ہوتی ہے

یہ تھے نیک دل خلیفہ جو اپنی بے شمار خوبیوں کی بدولت عمر ثانی کہلائے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حکمران کی مثال ایک بازار کی سی ہے جس میں وہی چیزیں لائی جاتی ہیں جن کی بازار میں مانگ ہوتی ہے، اگر حکمران خود نیک ہو گا تو رعایا بھی نیک ہو گی، اگر وہ نیک نہیں ہے تو رعایا بھی نیک نہیں ہو گی۔

عمر بن عبد العزيز ۱۶ ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ محترمہ ام عاصم خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کی پوتی تھیں۔ یہ بنو امیہ کی خلافت کا دور تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان، اس زمانے میں مصر کے والی تھے۔ انہوں نے اہلیہ کو پیغام بھجوایا کہ عمر کو لے کر مصر آ جائیں۔

بچپن شہر مدینہ میں

وہ ننھے بچے کو لے کر مصر جانے والی تھیں کہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے جوآپ کی والدہ ام عاصم کے چچا تھے، کہا کہ بچے کو ہمارے پاس چھوڑ دو کیونکہ یہ تم سب میں سے زیادہ ہم سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ سن کر ام عاصم نے بچے کو مدینہ منورہ میں ہی چھوڑ دیا اور مصر چلی گئیں۔ جب وہ مصر پہنچیں تو ان کے شوہر نے پوچھا ”عمر کہاں ہیں؟“ انہوں نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس ہے۔ عبدالعزیز بہت خوش ہوئے۔

اس طرح مدینہ منورہ میں اس بچے کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا، جسے بڑے ہو کر مملکت اسلامیہ کی باگ ڈور سنبھالنی تھی۔ بلند پایہ محدث صالح بن کیسان کو بچے کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ عمر اپنے استاد سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بھی حضرت صالح بن کیسان ہی کو یہ سعادت بخشی۔

­عمر بن عبد العزيز نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ عربی زبان اور شعر و شاعری کی تعلیم حاصل کی۔ علم حدیث مختلف علماء سے سیکھا، زیادہ ترحضرت عبداللہ بن عتبہ سے استفادہ کیا، بڑے بڑے محدثین نے عمر بن عبدالعزیز کے علم و فضل کو سراہا۔ علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”وہ بڑے امام، فقیہ، بڑے مجتہد، حدیث کے بڑے ماہر اور معتبر حافظ تھے۔“

”عمر بن عبد العزیز کے والد کے انتقال کے بعد آپ کے چچا عبدالملک بن مروان نے اپنی بیٹی فاطمہ سے آپ کی شادی کر دی۔ ۸۶ھ (۵۰۷ء) میں ولید بن عبدالملک خلیفہ بنے تو انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنے۔

میں نے گھر سے کوئی چیز پہلے سے نہ بھیجی تھی، منزل پر پہنچ کر مجھے کچھ نہ ملا

ایک بار عمر بن عبد العزيز، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ سفر پر نکلے۔ آپ نے اپنا خیمہ اور سامان پہلے سے روانہ نہیں کروایا تھا۔ منزل پر پہنچے تو ہر شخص اپنے اپنے خیمے میں چلا گیا۔ عمر بن عبدالعزیز کہیں نظر نہ آئے۔ خلیفہ نے تلاش کروایا تو ایک درخت کے نیچے اس حال میں ملے کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ خلیفہ نے بلواکر پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے؟ جواب ملا:
”رونے کا سبب یہ ہے کہ مجھے قیامت کا دن یاد آ گیا. دیکھئے میں نے گھر سے کوئی چیز پہلے سے نہ بھیجی تھی، منزل پر پہنچ کر مجھے کچھ نہ ملا. اسی طرح یوم قیامت کے لیے، جس نے جو چیز بھیج دی ہوگی، اس روز اسے وہی ملے گی۔“
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دل میں ابتداء ہی سے خشیت الٰہی پیدا فرما دی تھی۔شاید آپ کے اس تقویٰ سے متاثر ہو کر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے آپ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔

خلیفہ سلیمان بن عبدالملک ۹۹ھ (۷۱۷ ء) میں بیمار پڑے۔ انہوں نے وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن عبدالعزیز اور ا ن کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ کی قسم اب میں ایسی نامزدگی کروں گا جس میں شیطان کا کوئی حصہ نہ ہو گا۔

”ظہر کے وقت تک آپ کی زندگی کا کوئی ذمہ دار ہو سکتا ہے؟“

خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے بارے میں تمام اہل بنو امیہ سے بیعت لی گئی، پھر وصیت کا اعلان کیا گیا۔ عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ بنائے جانے پر کچھ لوگ ناراض تو ہوئے لیکن کچھ کر نہ سکے۔ ادھر عمر بن عبدالعزیز کا حال یہ تھا کہ آپ خلافت کی بھاری ذمہ داری کے صدمے سے نڈھال تھے۔ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی تدفین اور امور حکومت سنبھالنے کا ابتدائی مرحلہ مکمل کر کے، عمر بن عبدالعزیز اپنے گھر واپس آئے تو تھوڑی دیر آرام کرنا چاہا۔ اسی وقت آپ کے صاحب زادے عبدالملک نے آ کر پوچھا:
”آپ ان اموال کی واپسی سے پہلے آرام کرنا چاہتے ہیں جن پر بنو امیہ نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔“
عمر بن عبدالعزیز نے کہا:
 ”میں رات بھر کا جاگا ہوا ہوں، نماز کے بعد یہ کام کر لوں گا۔“
• صاحبزادے نے کہا ”ظہر کے وقت تک آپ کی زندگی کا کوئی ذمہ دار ہو سکتا ہے؟“
”عمر بن عبدالعزیز اس فقر ے کا اس قدر اثر ہوا کہ بیٹے کو پاس بلا کر گلے سے لگا لیا، پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا:
· ”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھ کو ایسی اولاد دی ہے جو دین کے کاموں میں مجھ کو مدد دیتی ہے۔“

آپ نے اُسی وقت اعلان کروا دیا کہ لوگ اپنے مال اور جائیداد وں کے بارے میں شکایتیں پیش کر دیں، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں زبردستی چھین لیا گیا ہے۔

اب اس شخص سے جنگ ہمارے لیے مناسب نہیں۔

یہ کام بڑا نازک تھا، خود عمر بن عبدالعزیز کے پاس موروثی جاگیر تھی۔ بعض افراد نے آ کر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کر دی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا:”میں ان کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔“

اس کے بعد عمر بن عبد العزيز نے تمام اہل خاندان کو بلایا اور ان سے کہا ”بن مروان! میرا خیال ہے امت کا نصف یا دو تہائی مال تمہارے قبضے میں ہے۔“
تمام اہل خاندان نے عمر بن عبدالعزیز کی بات میں چھپے خطرے کو فوراً بھانپ لیا اور بولے:”اللہ کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں گے، اس وقت تک یہ جائیدادیں واپس نہ ہوں گی۔ ہم اپنی اولادوں کو مفلس نہ بنائیں گے۔“
کام میں پہل اپنی ذات سے کی۔ آپ کے اس فیصلے سے ایک جانب عوام میں، امراء کے طبقے کے خلاف پھیلی ہوئی بے چینی کا خاتمہ ہوا،دوسری جانب ملکی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہوا۔خلیفہ بنتے ہی عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروا دیا۔ خاندان والوں کے وظائف بند کر دیئے۔ سرکاری سواری قبول کرنے سے انکار کر دیا اور خلفاء کے ساتھ نقیبوں اور علم برداروں کے چلنے کا سلسلہ روک دیا۔
غصب کی گئی جاگیر اور اموال ان کے اصل مالکان کو واپس کروانا عمر بن عبدالعزیز کا اہم کارنامہ ہے۔ آپ کے اس فیصلہ کا نتیجہ یہ نکلاکہ خارجی جو ہمیشہ خلفاء کے خلاف بغاوت کرتے رہتے تھے، کہہ دیا کہ اب اس شخص سے جنگ ہمارے لیے مناسب نہیں۔

لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے

عمر بن عبدالعزیز کا یہ رویہ دیکھ کر بنو امیہ کے  لوگ سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے خوب صورت کنیزیں آپ کی خدمت میں پیش کر کے آپ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر آمادہ کرنا چاہا لیکن عمر بن عبدالعزیز نے ہر کنیز سے اس کے مالک کا نام پتا پوچھا اور اسے اس کے مالک کے پاس پہنچا دیا۔

عمر بن عبدالعزیز، خلیفہ ثانی عمر بن خطاب سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد عمر رضی اللہ عنہٗ بن خطاب کے پوتے سالم رضی اللہ عنہٗ کو خط لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے اس کی استطاعت دے کہ میں رعایا کے معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کی روش اختیار کرلوں، اس لیے آپ میرے پاس ان کی وہ تمام تحریریں اور فیصلے بھیج دیجئے جو انہوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے بارے میں کہے ہیں۔ اللہ کو منظور ہوا تو میں ان کے نقش قدم پر چلوں گا۔“
مملکت میں جتنے معذور و مجبور تھے، ان کی فہرست تیار کروا کے ان کا وظیفہ مقرر کیا۔ سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کو امدادجاری کی۔ ناجائز آمدنیوں کی روک تھام، ظلم کے سدباب اور دولت کی دیانت دارانہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ حال تھا کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے اور مملکت کی آمدنی میں کئی گناہ اضافہ ہو چکا تھا۔

عمربن عبدالعزیز نے فوجی افسران کو ہدایت دی کہ کسی سے اس وقت تک جنگ نہ کریں جب تک کہ اسے اسلام کی دعوت نہ دے لیں۔

عمر بن عبدالعزیز نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں۔ ان میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا۔
آپ نے علم کو عام کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ جو علماء کرام تدریس یا علم کو پھیلانے میں مصروف تھے انہیں فکر معاش سے بے نیاز کر دیا۔ مختلف علاقوں میں دین کا علم پھیلانے کے لیے علماء بھیجے، واعظ اور مفتی مقرر کئے۔

عمر بن عبد العزيز کا سب سے بڑا کارنامہ احادیث نبوی  کی حفاظت اور اشاعت ہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ احادیث کے حافظ دنیا سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں تو آپ نے مدینہ منورہ کے والی قاضی ابو بکر کہ ہدایت فرمائی کہ احادیث نبوی تلاش کرو اور تحقیق سے اس کے مستند ہونے کے بارے میں اطمینان کر کے انہیں لکھ لو۔ اس قسم کا حکم نامہ تمام صوبووں کے والیوں کے نام ارسال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح احادیث کا بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا۔
” عمر بن عبد العزيز نے علماء کرام کی موجودگی میں مسجد نبوی کی قدیم عمارت کو شہید کروایا پھر نئی عمارت شروع ہوئی۔ عمر بن عبدالعزیز خود تعمیر کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ اینٹیں اٹھاکر لاتے تھے“ مسجد کی تعمیر نو تین سال میں مکمل ہوئی اس پر بھاری رقم خرچ کی گئی۔

عمر بن عبد العزيز نے فوجی افسران کو ہدایت دی کہ کسی سے اس وقت تک جنگ نہ کریں جب تک کہ اسے اسلام کی دعوت نہ دے لیں۔ اسی طرح والی خراسان جراح بن عبداللہ سلمی کی تبلیغ سے ان کے ہاتھ پر چار ہزار ذمی مسلمان ہو گئے۔ والی مغرب اسماعیل بن عبداللہ کی تبلیغ سے سارے شمالی افریقہ میں اسلام پھیل گیا۔

وفات حضرت عمر بن عبد العزيز

آپ نے سندھ کے زمینداروں اور حکمرانوں کو دعوت اسلام دی۔ اکثر نے اسلام قبول کیا۔ ان کی جائیدادیں اور زمینیں انہی کے قبضے میں رہنے دی گئیں۔ راجہ داہر کا لڑکا جے سنگھ بھی انہی میں سے تھا۔ آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر مختلف ملکوں نے وفود بھیج کر درخواست کی کہ ہمارے پاس تبلیغ کے لیے علماء بھیجے جائیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے غیر مسلموں سے رواداری کا سلوک کیا۔ عیسائیوں، یہودیوں اور آتش پرستوں کو اپنی عبادت گاہیں قائم رکھنے کی اجازت دی۔
عمر بن عبدالعزیز جب ۱۰۱ ھ (جنوری ۰۲۷ء) میں بیمار پڑے اس سلسلے میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ آپ کی علالت طبعی تھی دوسری روایت یہ ہے کہ بنو امیہ نے آپ کو زہر دلوایا تھا۔
طبیعت بہت خراب ہو گئی تو آپ نے اپنے ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی اس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ ۵۲ رجب ۱۰۱ھ (۰۱ فروری ۰۲۷ء) کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا۔ آپ کو حلب کے قریب در سمعان میں سپرد خاک کیا گیا۔

 

تحریر : ابو علی عبدالوکیل

 

اگر آپ شان صحابہ پر اشعار یا مزید اسلامی تاریخ پر مشتمل سنہرے واقعات پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.