اداس دل اور خموش لب ہیں ہر ایک جانب غموں کا سایہ
مٹادے وحشت کا ہر پہر تو سکوں عطا کر مرے خدایا
کہ راہ شیطاں پہ چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں بھٹک گئی ہوں
مری ہدایت کا فیصلہ ہو جبیں کو در پہ ترے جھکایا
اداس شامیں اداس راتیں اداس دل کی اداس باتیں
حقیر تر اس خزاں کے رت نے بہت ستایا مجھے رلایا
جفا سے سینہ کو چاک کرتی وفا کی قائل یہ جھوٹی دنیا
شکستہ حالت یہ زخمی دل ہے ہر ایک انساں ہے بے سہارا
سبھی ہیں غافل نبی کی سنت نبی کی چاہت سے اس جہاں میں
متاعِ سنت کو جس نے کھویا اسی نے جنت بھی ہے گنوایا
اے مولی غفلت سے تو جگا دے تو نیک انساں مجھے بنا دے
عطا محبت ہو خوب تیری دعائیں سن لے مرے خدایا
اداس دل اور خموش لب ہیں ہر ایک جانب غموں کا سایہ
مٹادے وحشت کا ہر پہر تو سکوں عطا کر مرے خدایا
شاعری: فضاء فانیہ