کتنے ہوۓ ہیں صاحبِ عرفاں تمام شد
جس نے کیا ہے عشق مِری جاں تمام شد
اترا نقاب رخ سے جو اک ماہ جبین کے
جتنے تھے لوگ دید کے خواہاں تمام شد
اس کو نہ دی شکست سرِ بزم دوستاں
خود کر دیۓ وفاؤں کے پیماں تمام شد
ہم نے غموں کے دشت میں کاٹی ہے زندگی
بعد از جناب یوں ہوۓ ارماں تمام شد
دینا پڑے گا اُن کو بھی اک دن وہاں حساب
جن کو ملی ہے دولتِ شاہاں تمام شد
وہ دن بھی ہے قریب کہ ہو جائیں گے میاں
صحراء تمام شد یہ گلستاں تمام شد
پیغام دے رہی ہیں یہ اونچی عمارتیں
ہونے کو ہے یہ گردشِ دوراں تمام شد
“بابر” کھلی وعید ہے قولِ رسولؐ میں
جس نے کیا نہ حشر کا ساماں تمام شد
آقاۓ نامدار کا میدانِ حشر میں
کافی ہے “برق” گوشۂِ داماں، تمام شد
کتنے ہوۓ ہیں صاحبِ عرفاں تمام شد
جس نے کیا ہے عشق مِری جاں تمام شد
شاعری : بابر علی برق