تو بتا دے کہاں جائیں سبھی ہارے ہوئے لوگ |اداس اردو شاعری

0 11

تو بتا دے کہاں جائیں سبھی ہارے ہوئے لوگ
تیری دہلیز پہ دامان پسارے ہوئے لوگ

وسعتِ شہرِ عدم بھی ہے یہاں صحرا بھی
کس طرف جائیں ترے دل سے اتارے ہوئے لوگ

قافلہ میں نے بنایا تھا کہ میرے ہیں سبھی
مجھ پہ مشکل جو پڑی تو یہ تمھارے ہوئے لوگ

آنکھ میں اشک نہیں لب پہ ہنسی ہے پھر بھی
درد سے چُور لگیں زُلف سنوارے ہوئے لوگ

ہم اسی واسطے ہنس کر نہیں ملتے ہیں میاں
ہم نے شیرینی بکھیری بھی تو کھارے ہوئے لوگ

اُس پری زاد نے چھوڑا تو بھرم ٹوٹ گئے
ایک اک کر کے سبھی ہم سے کنارے ہوئے لوگ

ہوش آنے پہ تیرے گھر کا پتہ پوچھیں گے
تیرے دیدار کی لذت سے خمارے ہوئے لوگ

کس کے لہجے میں ترے جیسی ترواٹ ہے یہاں
کون ہے جس کی سنیں تیرے پُکارے ہوئے لوگ

دشت میں حضرتِ مجنوں سے اُلجھ بیٹھے ہیں
ترے کوچے سے مرے دوست گزارے ہوئے لوگ

اِک زمانے کو شفا دان کیا کرتے ہیں
تیری زلفوں کے ڈسے آنکھ کے تارے ہوئے لوگ

ہم کو سائے کے عوض دُھوپ ملی ہے احسن
ہم گھنے پیڑ بنے ہی تھے کہ آرے ہوئے لوگ

تو بتا دے کہاں جائیں سبھی ہارے ہوئے لوگ
تیری دہلیز پہ دامان پسارے ہوئے لوگ

شاعری: احسن اعجاز

اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں 

فرصت جو میسر ہے تو اب ڈھونڈ رہا ہوں ….میں تیرےبچھڑنے کا سبب ڈھونڈ رہا ہوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.