ہو گئے ہیں رفتہ رفتہ سارے منظر اجنبی
پیڑ شاخیں تتلیاں دریا سمندر اجنبی
میں تو سمجھا تھا مرا اِس شہر میں کوئی نہیں
دُور تک تکتا گیا مُجھ کو پلٹ کر اجنبی
عشق کے ارض و سماوات سے ہجرت کر لی
اُس نے محفوظ مقامات سے ہجرت کر لی
ہر سُو آسیب زدہ گھر ہی نظر آتے ہیں
کیا مکینوں نے مکانات سے ہجرت کر لی ؟
ہائے افسوس تجھے دل میں بسائے رکھا
اور تُو نے تو مری ذات سے ہجرت کر لی
اُس کے دل کو بھی…
دنیا کے اس جہاں میں تنہا سا رہ گیا ہوں
ویران گلستاں میں تنہا سا رہ گیا ہوں
سارے ستارے روشن جس کے بہت ہی زیادہ
اس پیاری کہکشاں میں تنہا سا رہ گیا ہوں
ہر کوئی اپنی اپنی خوشیوں میں مست ہے یاں
خوشیوں کے اس سماں میں تنہا سا رہ گیا ہوں…
شبِ سیاہ میں کچھ اِس لیے عیاں تھے ہم
زمیں پہ پھیلی ہوئی گَردِ کہکشاں تھے ہم
چراغ اور ہَوا میں نہ تھا گُریز کوئی
اک ایسی طرزِ ضیافت کے میزباں تھے ہم
کسی کسی کو سنائی دیے تھے حرف بہ حرف
کسی کسی کے لیے فجر کی اذاں تھے ہم
کچھ اِس…
غم کی دہلیز پہ تنہا ہوں میاں کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے بھلائی کا نشاں کوئی نہیں
در بدر ایسے بھٹکتا ہوں ، مکاں کوئی نہیں
اے خدا تیرے سوا میرا یہاں کوئی نہیں
خواہشوں کو دل کے قبرستاں میں دفنایا گیا
ایک مدت سے جہاں، کوئی نہیں آیا گیا
عشق کرنے میں کوئی خامی نہیں ہے ،ہاں مگر
اس ڈگر جو بھی چلا ،روندا ہوا پایا گیا