سہانے خواب دکھا کر حریص لوگوں کو
دبوچ لیتی ہے دنیا حسین بانہوں سے
رہیں گے سینہ سِپر یار تیرے شیدائی
مدد کی بھیک نہ مانگیں گے جاں پناہوں سے
خدا نے روزِ قیامت حساب لینا ہے
گواہی مانگ نہ ان دوغلے گواہوں سے
مرید سہتے رہے ظلم ہر گھڑی لیکن
نکل کے پیر نہ آئے قیام گاہوں سے
بھٹک نہ جائیں بشر ڈھانپ یہ رخِ زیبا
نہ کھینچ اپنی طرف لوگ یوں نگاہوں سے
جو بات بات پہ احساں جتانے لگتے ہیں
خدا بچائے میاں ایسے خیرخواہوں سے
شراب ! سود ! ستم ! اور یہ ! زناکاری
وبال قوم پہ اترا ہے ان گناہوں سے
بقائے دین کی خاطر یہ سرفروشِ وطن
الجھ پڑیں گے زمانے کے بادشاہوں سے
پڑے گی بانگ سرافیل سب کے کانوں میں
اٹھیں گے لوگ سبھی “برق” خواب گاہوں سے
سہانے خواب دکھا کر حریص لوگوں کو
دبوچ لیتی ہے دنیا حسین بانہوں سے
شاعری : بابر علی برق
اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں