روند کر ناکامیوں کو جیت سکتا ہے جہاں | غمگین شاعری
نوجوان شاعر بابر علی برق کی خوبصوررت شاعری
روند کر ناکامیوں کو جیت سکتا ہے جہاں
گر ہو سر پہ آدمی کےچاہتوں کا آسماں
جس کو دیکھو جا رہا ہے زندگی سے روٹھ کر
کوئی تو کرتا مکمل یہ ادھوری داستاں
چال چلتے ہیں جو اکثر شاطروں سی میرے ساتھ
رہ نہیں سکتا میں ایسے دوستوں کے درمیاں
وہ مداوا درد کا کیسے کریں گے دوستو
جن کے چہروں سے چھلکتی ہوں فقط خود غرضیاں
روٹھ کر یوں زندگی سے مت کرو تم خود کشی
کیا بنانا ہے تمہیں دوزخ میں ہی اپنا مکاں
شیش محلوں کو بنا کر بھی سکوں نہ پاؤ گے
رب کی چوکھٹ کے سوا کوئی نہیں جاۓ اماں
کون پاۓ منزلِ مقصود یارو کیا خبر
ہر طرف پھیلا ہوا ہے نفرتوں کا یہ دھواں
جان سے جاؤ گے "بابر” اب بھروسہ مت کرو
دشمنوں پر بھید کھولے گا تمہارا رازداں
بغض رکھتے ہیں چھپا کر "برق” تم نادان ہو
صرف چہروں سے عیاں ہوتی نہیں ہیں تلخیاں
روند کر ناکامیوں کو جیت سکتا ہے جہاں
گر ہو سر پہ آدمی کےچاہتوں کا آسماں
شاعری : بابر علی برق