ہوئی ہم کو غلط فہمی بھروسہ تجھ پہ کر بیٹھے
فدا ایسے ہوئے تجھ پہ کہ یاراں ہم تو مر بیٹھے
ملا جب سے ترا یہ آستاں ہم کو جبھی سے ہم
جھکائے اپنے ماتھے کو تری دہلیز پر بیٹھے
خبر پہلے سے تھی کہ تو ہمیں بے جان کر دے گا
ہمیشہ جان جانے کا تھا خطرہ ہم مگر بیٹھے
سنا تھا عشق میں عاشق بہت سے رنج اٹھاتا ہے
سو ہم بھی رنج کے مارے ہوئے ، پھر در بہ در بیٹھے
کبھی روئے کبھی روٹھے کبھی تڑپے کبھی ٹوٹے
نہ جانے درد کتنے ہی لیے ہم اپنے سر بیٹھے
تو واپس لوٹ آ دانش کہ تیری راہ کو تکتے
بڑے عرصے سے ہم تھامے ہوئے اپنا جگر بیٹھے
ہوئی ہم کو غلط فہمی بھروسہ تجھ پہ کر بیٹھے
فدا ایسے ہوئے تجھ پہ کہ یاراں ہم تو مر بیٹھے
شاعری : شیخ دانش عاصی اورنگ آبادی