ہیں آج بھی آنکھوں میں وہ طیبہ کے نظارے | نعت شریف
naat lyrics urdu writing| naat sharif lyrics urdu
ہیں آج بھی آنکھوں میں وہ طیبہ کے نظارے
ارمان وہ آنکھوں کا ہیں اور دل کے سہارے
یہ جسم تو گھر آ گیا آنکھیں ہیں وہیں پر
اے کاش کہ دن اور بھی مل جاتے ادھارے
وہ گنبدِ خضری کی حسیں چھاؤں کے منظر
طوفانِ غمِ دہر میں ساحل کے اشارے
میں مسجد نبوی میں یونہی گھومتا رہتا
سجدوں میں گزر جاتے شب و روز یہ سارے
طیبہ کی وہ گلیاں ہیں کہ جنت کے در و بام
تسکین سبھی پاتے ہیں دکھ درد کے مارے
اے مولا مدینہ میں ختم وقت اگر ہو
یہ موت ہر اک میری تھکن خوب اتارے
لے جائیں فرشتے میری روح خلد کی جانب
میت بھی اٹھے اہل مدینہ کے سہارے
اک رشک سے تکتے ہیں مدینے کی فضا کو
یہ کوہ و دمن ، ارض و سما، چاند ستارے
تھی آقا کی آمد کہ طلوع چاند ہوا تھا
یثرب کی وہ بچیوں کے عجب گیت تھے پیارے
دلدل میں گناہوں کے پھنسی جان ہے صفدر
اک شہر نبی پاؤں تو لگ جاؤں کنارے
ہیں آج بھی آنکھوں میں وہ طیبہ کے نظارے
ارمان وہ آنکھوں کا ہیں اور دل کے سہارے
شاعری : سلیم اللہ صفدر
اگر آپ مزید مناجات، حمدیہ اشعار، نعت شریف یا شان صحابہ پر کلام پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
ڈیئر سلیم اللہ صفدر بھائی!
گنبدِ خضریٰ کا سایہ کدر ہوتا ہے؟
مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں لوکیشن بتا دیں۔
کاشف حسین
گنبد خضری کا سایہ مسجد نبوی اور ریاض الجنہ میں ہوتا ہے اور کافی تسکین آمیز ہے یعنی غم کے طوفان میں گھرے انسان کو ساحل کا جیسے اشارہ مل گیا ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ احباب میری شاعری کو اتنے غور سے پڑھتے ہیں