فوجی کی ٹانگ اور مفت آٹے کی لائن

ہم اپنی حالت خود نہیں بدلنا چاہتے۔ ہم محض ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے اور فیس بک پر سٹیٹس ڈال کر ستاروں پر کمند ڈالنے والوں میں سے ہیں۔ خود پر رحم کیجیے, ہنر سیکھیے, کاروبار کیجیے۔

3 56

کہتے ہیں ہمیں 75 سال اس پر رکھا گیا کہ ہمارے فوجی کی ٹانگ بھارتی فوجی سے اونچی ہے اس لیے ہم پیچھے رہ گئے ترقی نہیں کر سکے. یا بنگلہ دیش والے جلدی کر گئے ورنہ انہیں بھی مفت آٹا مل جاتا۔

جناب آپ کی نظریں بھی فوجی کی ٹانگ ہی ناپتی رہیں. آپ کی نظریں بھی بھارتیوں یا بنگالیوں کی طرح تعلیم پر ہوتیں تو آج آئی ٹی میدان میں بھارت کا نہیں آپ کا قبضہ ہوتا۔ ہمارا نوجوان سارا دن سوشل میڈیا پر انتشار ڈھونڈتا اور پھیلاتا ہے۔ جبکہ بھارتی سوشل میڈیا پر آن لائن منڈیاں چلاتے ہیں۔ عالمی کمپنیوں میں ریموٹ جابز پر بھارتیوں کا تسلط ہے۔

ہمارے ہاں نوجوان کو ترغیب دی جاتی ہے۔ آئیے ہماری سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا کا حصہ بنیے اور ریاست کا قلع قمع کیجیے۔

اس وقت جتنا غیرملکی قرض پاکستان نے ادا کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ ڈالرز بھارت کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں سال میں کما لیتی ہیں۔ ادھر حالت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا آئی ٹی سیکٹر سالانہ دو ارب سے زیادہ نہیں کما پا رہا۔

بھارت نے ڈیجیٹل انڈیا مہم چلا کر ملک کو نئی جدت دی۔ جبکہ ہمارے ہاں نوجوان کو ترغیب دی جاتی ہے۔ آئیے ہماری سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا کا حصہ بنیے اور ریاست کا قلع قمع کیجیے۔
دنیا بھر کے ٹاپ سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ نامور اسٹور وال مارٹ نے فلپ کارٹ کے ساتھ بھارت سے 2019 میں 6 ارب ڈالر سے زائد کمائے تھے۔ یہ اتنی رقم ہے جتنی پاکستان کو 2018 میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کی مد میں چاہیے تھی۔
چین نے گوگل کے مقابلے میں اپنا سرچ انجن بیدو بنایا۔ چین کی سافٹ ویئر انڈسٹری کی کمائی سالانہ ٹریلین یوان تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ کل بھی ہم یہی کہہ رہے ہوں گے ’’جو کروا رہا ہے، امریکا کروا رہا ہے‘‘ یا ’’یہ سب یہود و نصاریٰ کی سازش ہے تاکہ مسلمان غلام بن کر رہ سکیں‘‘۔

ہم ترقی کا راز جدید تعلیم میں نہیں وزیر اعظم کی کرسی کے پائے میں ڈھونڈتے ہیں.

ہاں ہم ان سب کی کامیابیوں پر جلتے کڑھتے ان کے سامنے ہمیشہ جھکے رہیں گے. کیونکہ ہم ترقی کا راز جدید تعلیم میں نہیں وزیر اعظم کی کرسی کے پائے میں ڈھونڈتے ہیں. ہم حکومتوں کی تبدیلی میں اپنی حالت زار کا حل تلاش کرتے ہیں چہروں کی تبدیلی سے اپنا فیوچر تابناک کرنا چاہتے ہیں. لیکن ایسا ہوتا نہیں. ہر حکومت پچھلی حکومت سے بدتر ثابت ہوتی ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت سال 2021 کے دوران پنجاب کو 13 کھرب 44 ارب، سندھ کو 6 کھرب 88 ارب، خیبرپختونخوا کو 4 کھرب 46 ارب اور بلوچستان کو 2 کھرب 63 ارب روپے کے فنڈز منتقل کیے گئے. جبکہ سالانہ اربوں روپے کا بجٹ الگ ہے.

لیکن کل کی خبر ہے کہ خیبر پختونخواہ میں عید پہ ایڈوانس تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں جبکہ گذشتہ سال خیبر پختونخواہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرض لے چکا ہے. اور انسداد دہشتگردی کی مد میں خیبرپختونخوا کو فنڈ ملتا رہا ہے. یہی حال 19 بیس کے حساب سے سندھ اور پنجاب کا ہے. جنوبی پنجاب میں پینے کا پانی نہیں, سندھ میں تعلیم نہیں، پیپرز ہر سکول میں ہیں لیکن حقیقت میں ان کا وجود نہیں۔

اگر ٹانگ پر فوکس کم کرتے ہوے آپ اپنی اپنی صوبائی حکومتوں سے پوچھتے کہ این ایف سی کے تحت آپ مالیاتی طور پر آزاد ہیں تو پھر صحت تعلیم روزگار کہاں ہیں؟ سالانہ بجٹ کی کھپت کہاں ہوتی ہے؟؟
کہا گیا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہو گی۔ صوبوں سے مزید نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کی جائے گی۔

لیکن کیا عوام کی حالت سدھری؟؟؟
یہ تھا تصویر کا ایک رُخ۔۔۔!

اگر حکومتوں نے فلاحی پروگرام شروع بھی کئے تو عوام نے اس سے استفادہ حاصل نہیں کیا۔

دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہر حکومت نے عوامی فلاحی پروگرام دئیے
بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام۔۔۔۔ احساس پروگرام جیسے عوامی فلاحی پروگرام چلائے۔
ماہانہ 51 لاکھ خواتین لائنوں میں لگی یہ رقم حاصل کر رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش میں 32 لاکھ خواتین گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں گارمینٹ کی تقریباً 5 ہزار چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں اس کی جی ڈی پی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ شعبہ لاکھوں کی تعداد میں ورکرز کو روزگار مہیہ کرتا ہے جن میں سے 80 فیصد ورکرز خواتین ہوتی ہیں۔

بنگلہ دیش نے چھوٹے قرضوں پر مبنی منصوبوں کے ذریعے اپنی خواتین کو خودمختار بنایا۔ جبکہ ہمارے ہاں اگر حکومتوں نے فلاحی پروگرام شروع بھی کئے تو عوام نے اس سے استفادہ حاصل نہیں کیا۔ بلکہ
خیرات کو اوڑھنا بچھونا بنا کر پورا ماہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام سے حاصل ہونے والی رقم کا انتظار کیا۔
سارا دن محو استراحت رہنے والے احساس سیلانی لنگر پروگرام میں سب سے پہلے لنگر لینے پہنچتے تھے۔

فوجی کی ٹانگ اور مفت آٹے کی لائن
بنگلہ دیش میں 32 لاکھ خواتین گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

فوجی کی ٹانگ ناپنے کی بجائے انڈینز سے اپنی عقل اور ہنر ناپ کر دیکھیے۔

پچھلی حکومت میں احساس آمدن پروگرام کے تحت دو لاکھ پالتو جانور تقسیم کئیے گئے۔ لیکن یہ مستحق افراد دوسرے دن ہی ان جانوروں کی رسیاں تھامے مختلف جگہوں پر بیچتے نظر آئے۔ حالانکہ ان جانوروں کے کانوں کو چھید کر سکیم کے نام کا ہینگ ٹیگ بھی لگایا گیا تھا۔ مویشی پال ایک انتہائی منافع بخش کام ہے لیکن ہم ٹھہرے سدا کے ہڈ حرام..۔۔!

اس ساری صورتحال سے اندازہ کیجیے کہ ہم اپنی حالت خود نہیں بدلنا چاہتے۔ ہم محض ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے اور فیس بک پر سٹیٹس ڈال کر ستاروں پر کمند ڈالنے والوں میں سے ہیں۔
خود پر رحم کیجیے۔ ہنر سیکھیے۔ کاروبار کیجیے۔
سوشل میڈیا کو اپنے کاروبار کے لیے استعمال کیجیے، انتشار کے لیے نہیں۔
فوجی کی ٹانگ ناپنے کی بجائے انڈینز سے اپنی عقل اور ہنر ناپ کر دیکھیے۔

تحریر :حجاب رندھاوا

اگر آپ پاکستان کی موجودہ پریشان کن صورتحال پر مزید کچھ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں

3 تبصرے
  1. sklep internetowy کہتے ہیں

    Wow, incredible weblog layout! How lengthy have you ever been running a blog for?
    you make running a blog look easy. The total glance of your web site is
    great, let alone the content! You can see similar here sklep

  2. najlepszy sklep کہتے ہیں

    Link exchange is nothing else however it is simply placing the other person’s web
    site link on your page at suitable place and other person will
    also do similar in support of you. I saw similar here: Dobry sklep

  3. najlepszy sklep کہتے ہیں

    Wonderful, what a web site it is! This webpage provides valuable facts to us,
    keep it up. I saw similar here: Najlepszy sklep

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.