صحابہ کرام جنہوں نے شمع عشق رسول سے عرب و عجم کو منور کر دیا
صحابہ کرام نے اسلام کو عرب و عجم میں پھیلایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے فروغ میں سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو حاصل ہے وہ عشق رسول ہی ہے۔ یہ عشاق رسول ہی تھے جو اسلام کے پیغام کو لےکر کوہ و دشت میں سرگرداں پھرتے تھے، اس عشق کا ہی کرشمہ تھا جس نے ان لوگوں کو سیلاب باطل کے مقابلے میں دیوار حق بنا دیا تھا ، اس عشق کا جادو ہی تھا جو قیصر و کسری جیسی عظیم طاقتوں کے سر چڑھ کر بولا تھا ،
یہ حب مصطفیٰ اور عشق مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھا جس نے میدانِ وفا میں حسین بن علی رضی اللہ عنہا کو صبر ، زید رضی اللہ عنہ کو استقلال، بلال رضی اللہ عنہ و صہیب رضی اللہ عنہ کو ثابت قدمی، خالد بن ولید کو شجاعت اور طارق بن زیاد کو اولوالعزمی عطا کی تھی،
حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سوز و تپش نے ہی تو عرب کے صحرا نشینوں کو تاج ایران اور تخت روم کا مالک بنایا تھا ، یہی وہ جذبہ تھا جس نے انہیں زندگی کے ہر میدان میں کامیابی عطا کی تھی۔
صحابہ کرام کا دعوی زبانی دعوی نہیں تھا
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جوش محبت اور ذوق عشق ہم لوگوں کی طرح محض زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام اُسوہ رسول کی پابندی کا خیال زندگی کے ہر میدان میں رکھتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حسنہ ان کی زندگی میں پوری طرح اُتر چکے تھے ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف، ایثار و قربانی ، حق گوئی و بیباکی، عفو و درگزر ، عفت و پاکبازی ، شرم و حیا، عدل و انصاف ان کی زندگی میں رچ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تین سو تیرہ افراد کی بے سرو سامان ایک مختصر جماعت، جس میں بوڑھوں بچوں اور غلاموں کی کثرت تھی ، بدر کے میدان میں ایک ہزار جنگجو لوگوں پر، جو ہر طرح کے سامان حرب سے لیس تھے، بھاری ثابت ہوئی ۔
یہ عشق رسول ہی کا پیدا کیا ہوا جوش تھا کہ جب آپ بدر میں لشکر کو تر تیب دیتے ہیں تو بچے اپنا لمبا قد ظاہر کرنے کے لئے ایڑیاں اٹھا لیتے ہیں اور بوڑھے اپنا سینہ پھلا کر اکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں صرف اس لئے کہ کہیں ان کی کمزوری کی بنا پر انہیں جنگ کی شرکت سے روک نہ دیا جائے اور وہ اپنے محبوب کی حفاظت میں جان دینے سے محروم نہ رہ جائیں_
اُحد کے میدان میں وقتی طور پر کفار غالب آ جاتے ہیں۔ ان کی بھر پور کوشش ہے کہ شمع نبوت کی اس لو کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیں ۔ مگر پروانے اس شمع کے گرد جمع ہیں عشق کی آگ میں خود کو خاکستر کئے ڈالتے ہیں_
آج بھی اگر ہمیں کچھ پانا ہے تو اس ذوق و شوق کو زندہ و بیدار کرنا پڑے گا جو صحابہ کرام میں تھا
حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ ہیں کہ دشمن کے تیروں کی طرف اپنی پشت کر کے اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کوئی تیر رسول اللہ کو نقصان نہ پہنچا دے یہاں تک کر ان کی کمر چھلنی ہو جاتی ہے اور گر پڑتے ہیں_
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نشانِ رسول کو بلند کئے ہوئے ہیں۔ دشمن کے وار سے ہاتھ کٹ جاتا ہے تو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔ جب وہ ہاتھ بھی کٹ جاتا ہے تو دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں سے نشان کو سینے سے لگا کر تھام لیتے ہیں اور جب تک دشمن ان کو شہید نہیں کر دیتا تب تک علم رسول کو بلند ہی رکھتے ہیں۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی ڈھال ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے تو اس خوف سے ڈھال اٹھانے کے لئے نہیں جھکتے کہ کہیں وہ جھکیں اور کوئی وار ان کے محبوب پر ہو جائے ۔ ہر وار کو اپنے ہاتھ پر ہی روکتے ہیں یہاں تک کہ اس عاشق صادق کا ہاتھ زخموں سے شل ہو جاتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ داستان عشق ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ آج بھی اگر ہمیں کچھ پانا ہے تو اس ذوق و شوق کو زندہ و بیدار کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ذوق و شوق اور تپش و گداز پیدا ہو جائے تو یقینا ہم عشاق رسول کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ خالی دعوی سے کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں محبت رسول کی ساتھ اطاعت رسول کی بھی توفیق سے نوازے
آمین یا رب العالمین
شاعری : انمول منھاس
تصویر میں نظر آنے والی کتاب عظیم مصنفہ صغریٰ یامین سحر صاحبہ کی ہے جو صحابہ کرام کے حالات زندگی پر لکھی گئی ہے۔
آ بتاؤں کہ کیا ، صحابہ ہیں ؟ ہم ہیں جن پر فدا صحابہ ہیں | شان صحابہ پر اشعار