تخلیق کائنات کا قرآنی مفہوم

کائنات کی تخلیق اور اس میں انسان کی انفرادیت | Creation of universe

0 439

اللہ رب العزت نے کائنات تخلیق کی۔ سات آسمان، سات زمینیں بنائیں۔ انہیں سنوارا۔ فرشتے جن و انس حیوانات، نباتات اور جمادات پیدا کیے۔  اب ان سب کی ترتیب کیا تھی اور کیا ہماری موجودہ سائنس اس ترتیب کو مانتی ہے یہ ہم آج ڈسکس کرتے ہیں. اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تخلیق کائنات کا قرانی مفہوم کیا ہے؟

یہاں ایک بات نوٹ کر لیں. قرآن مجید کے الفاظ عربی زبان میں ہیں جو اللہ رب العزت کا کلام ہے اور یہ کائنات اللہ رب العزت کی تخلیق ہے. تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ رب العزت کے کلام اور اس کی تخلیق میں کوئی فرق ہو…! اور اگر ہمیں کوئی فرق محسوس ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ یا تو ہم اللہ رب العزت کی تخلیق (یعنی کائنات) کو مکمل طور پر جانچ نہیں سکے یا اللہ رب العزت کے کلام کے کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے. اس میں غلطی ہماری ہو سکتی ہے اللہ رب العزت کی تخلیق یا اس کے کلام میں کسی قسم کی غلطی ممکن نہیں.

بگ بینگ تھیوری، تخلیق کائنات اور سات زمین و آسمان کی پیدائش

سائنس ہمیں بگ بینگ تھیوری پیش کرتی ہے۔ جس کے مطابق کائنات کی ابتدا دھماکے سے ہوئی جس کے بعد یہ کائنات پھیلنا شروع ہو گئی. زمین و آسمان کہکشاں سیارے ستارے بگ بینگ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ اور عین یہی بات اللہ رب العزت نے بیان فرمائی.

زمین و آسمان کی پیدائش والی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔ (الانبياء، 21 : 30)

سات زمینیں اور سات آسمان ہیں مگر ہماری پہنچ سے فی الحال باہر ہیں

اب یہاں بیان کردہ زمین و آسمان وہ نہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یعنی ہمارے قدموں کے نیچے والی زمین اور نیلا آسمان۔ بلکہ زمین و آسمان سے مراد سات زمینیں( ایک یہ زمین اور باقی چھ زمینیں جن تک سائنس ابھی نہیں پہنچ سکی) اور سات آسمان (ہماری آنکھوں کے سامنے نیلا آسمان ہے جو خلا میں کالا نظر آتا ہے باقی چھ آسمان کے حوالے سے سائنس ابھی خاموش ہے۔ البتہ فرشتوں کے تیسرے چوتھے اور خود اللہ رب العزت کے تہجد کے وقت پہلے آسمان پر اترنے کی احادیث موجود ہیں ).

اب اس صورت میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں مگر ہماری پہنچ سے باہر ہیں فی الحال. اور اس کی وجہ بھی اللہ رب العزت نے خود فرما دی کہ ہم زمین و آسمان کی حدود کو نہیں پھلانگ سکتے چاہے جتنی دنیاوی طاقت حاصل کر لیں. (اگر یہ طاقت اللہ رب العزت عطا کر دیں تو ممکن ہے لیکن فی الحال یہ طاقت انسان کو نہیں دی گئی. جنوں کے پاس طاقت ہے اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے والے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں لیکن اس کے آگے انہیں فرشتے آگ کے شعلے مارتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس سے مزید آگے نہیں جا سکتے )

تخلیق کائنات کا قرآنی مفہوم
ہم زمین و آسمان کی حدود کو نہیں پھلانگ سکتے چاہے جتنی دنیاوی طاقت حاصل کر لیں.

پانی

زندگی کا منبع پانی ہے. یہ بات نہ صرف قرآن تسلیم کرتا ہے بلکہ سائنس بھی. سائنس کی رو سے اس زمین پر زندگی دراصل پانی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی. پانی کی ہی وجہ سے یہ زمین باقی سیاروں کی نسبت ٹھنڈی ہے۔ اور پانی کی ہی وجہ سے یہاں زندگی کا وجود بن پایا. تخلیق کائنات کے بعد شروع میں یہ زمین بہت گرم تھی۔ پھر بھاری پانی جسے D2O کہا جاتا ہے کی وجہ سے بجلی اور گرج چمک نے یہاں کے ماحول کو ٹھنڈا کیا اور بالآخر یہاں وہ ماحول بن گیا جو زندگی کے لیے بہترین تھا.

فرشتے

اللہ رب العزت نے فرشتے نور سے پیدا کیے اور کب پیدا کیے یہ نہیں بتایا. لیکن فرشتوں کی خصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زمان و مکاں(time and space ) کی قید سے آزاد ہیں. وہ اللہ رب العزت کے حکم سے جب چاہیں جہاں چاہیں فوراً پہنچ سکتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں سیکنڈوں میں پہنچنے کا لفظ استعمال کرنا بھی میرے خیال میں مناسب نہیں۔ کیوں کہ انہیں کہیں آنے جانے میں وقت نہیں لگتا. اور عین ممکن ہے کہ انہیں زمان و مکاں کی تخلیق سے بھی قبل یعنی تخلیق کائنات سے بھی قبل پیدا کیا گیا ہو. سائنس فرشتوں کے حوالے سے خاموش ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ان کو جھٹلاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں خاکی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتی.

جن

جنوں کی پیدائش انسانوں سے پہلے ہوئی اور ان کو آگ کے دھوئیں سے پیدا کیا گیا. یہ فرشتوں سے مختلف اس لیے ہیں کہ ان کے اندر شر اور خیر کا مادہ پایا جاتا ہے. یہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں. شیطان بھی ایک جن تھا اور اللہ رب العزت کی بہت عبادت کرتا تھا۔ لیکن اس نے غرور میں آ کر سجدہ نہیں کیا جس کی وجہ سے مغضوب ٹھہرا اور آج تک انسانوں اور جنوں کو گمراہ کر رہا ہے.

جنوں اور انسانوں کا آپس میں تعلق نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اگر ایسے کچھ اعمال کیے جائیں جن سے شیطان خوش ہو تو شیطان اپنے چند چیلوں کو وہ اعمال کرنے والے انسان کی خواہش کی تکمیل میں لگا دیتا ہے اور اسے ہم جادو کہتے ہیں. یعنی اگر کوئی انسان اللہ رب العزت کی اہانت و گستاخی پر مشتمل کوئی کام سرانجام دیتا ہے تو اس جادو کے ذریعے شیطان اپنے جنوں کو انسانوں پر مسلط کر دیتا ہے…. لیکن ہر انسان پر جادو اثر کرتا بھی نہیں.

جادو

جو انسان اللہ رب العزت اور عقیدہ توحید پر کامل یقین رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور صبح و شام کے اذکار باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ جادو کے اثر میں نہیں آتے. اللہ کے رسول پر جب جادو ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے معوذتین سکھائی. جس کے بعد وہی معوذتین یعنی قرآن مجید کی آخری دو سورتیں تمام امت مسلمہ پڑھتی ہے اور اپنے آپ کو جادو، جنوں، شیطانوں سے محفوظ کر لیتی ہے.

سائنسی قوانین کے مطابق جن کوئی حیثیت نہیں رکھتے. اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جن ایک نارمل انسان کی زندگی میں یا نارمل معاشرے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ ورنہ دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی تاریخ میں جادو اور جنات کے متعلق کافی کچھ موجود ہے. سامری جادوگر سے لیکر آج تک کتنے ہی جادوگر موجود جن کا تذکرہ قدیم کتابوں میں ملتا ہے. سائنس جنوں کے متعلق خاموش ہے۔ البتہ ہپناٹزم، مسمریزم اور اس جیسے کئی عجیب و غریب طریقوں پر یقین رکھتی ہیں جن کا تعلق ہے تو جادو اور جنوں کے ساتھ مگر سائنس اس کا تعلق نفسیات کے ساتھ جوڑتی ہے.

انسان کی پیدائش

قرآن مجید کی آیات کی رو سے تمام جانداروں میں انسان ہی واحد جاندار ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا. اور اس میں روح پھونکی. سب سے پہلے جوڑے آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو جنت میں رکھا لیکن شیطان کے بہکاوے کے بعد دونوں کو دنیا میں بھیج دیا گیا . ایک ایسے مقررہ وقت تک امتحان کے لیے جو اللہ رب العزت کے ہاں تو لکھا ہوا ہے لیکن انسان خود اپنے متعلق نہیں جانتا کہ اسے کتنا وقت ملا. انسان کی پیدائش کا منبع پانی ہے اور اس کی ساخت میں مٹی استعمال ہوئی. یعنی جس طرح جنوں کی پیدائش آگ اور آگ کے دھوئیں سے ہے بالکل اسی طرح انسان کی پیدائش پانی اور مٹی سے ہے.

سائنس ابھی تک انسان اور انسانی جسم کو جتنا کچھ سمجھ سکی اس کے مطابق انسان پانی سے تخلیق کیا گیا اور بعد میں مٹی کے ذریعے اس کا جسم بنا. یعنی جو کیمیکل اور کاربوہائیڈریٹس مٹی کے ہیں وہی انسان کے جسم کے ہیں. یا یوں کہہ لیں کہ جو عناصر انسانی جسم کے ہیں (کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن، کیلشیم، آئرن وغیرہ) وہ تمام کے تمام مٹی میں موجود ہیں.

روح

انسانوں اور جانوروں میں ایک ایسی چیز ہے جس کے ہونے کو سائنس زندگی قرار دیتی ہے. اور اگر وہ نہ ہو تو موت. قرآن مجید میں اسے روح کا نام دیا گیا ہے. سائنس روح کو جانچ پرکھ نہیں سکی لیکن وہ موت پر دسترس بھی حاصل نہیں کر سکی. یعنی آج تک کوئی بھی انسان موت کا مقابلہ نہیں کر سکا چاہے وہ جتنا بڑا بادشاہ ہو یا جتنا بڑا سائنس دان. سب نے آخر دنیا سے چلے ہی جانا ہے. اور انسان اس معاملے میں بالکل عاجز ہے کہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تو سارے کام کر سکتا ہے. لیکن زندگی کو لمبا کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا.

نظریہ ارتقاء

موجودہ سائنس آج کہتی ہے کہ سب سے پہلے پانی کے اندر زندگی پیدا ہوئی. اور اس کے بعد پانی میں ہی بیکٹیریا یا سب سے چھوٹے خلیات بنے جن میں بڑھوتری کی صلاحیت موجود تھی. وہ بڑھتے گئے اور بعد میں پانی میں تیرے والے جسم یعنی مچھلی بن گئے. مچھلی سے مختلف اقسام اور تنوع کی صورت ملی اور بعد میں وہ مگر مچھ بن گئے جو پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکتے تھے. اس مگر مچھ کے بعد خشکی کے جانور بنے اور بعد میں ہوا کے پرندے.

بندر سے انسان بننے والی تھیوری سائنسی حقیقت کے طور پر قبول نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کسی بندر کو انسان یا انسان کو بندر نہیں بنایا جا سکا۔ اور نہ ہی انسان اور بندر کی درمیانی کوئی حالت بن سکی۔ لیکن جانوروں اور پرندوں میں آج بھی اگر مخلتف قسم کے نر اور مادہ ملیں تو اس کے نتیجے میں اولاد دونوں خصوصیات لیکر پیدا ہوتی ہے۔ جیسے گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے خچر. لیکن یہ کیفیت انسان کی کسی جانور کے ملاپ سے نہیں حاصل کی جا سکتی.

تخلیق کائنات کا قرآنی مفہوم
مچھلیوں کا زمینی جانوروں مثلا مگرمچھ میں منتقلی ارتقاء کے سب سے بڑے مراحل میں سے ایک تھا۔ کینیڈا کے ایک شاندار نئے فش فوسل سے پتہ چلتا ہے کہ اس تبدیلی کے اعداد و شمار پانی چھوڑنے سے پہلے مچھلیوں کے پنکھوں میں تیار ہوئے۔

انسان منفرد ہے

اس کا مطلب انسان منفرد ہے اور قرآن مجید میں اسے اشرف المخلوقات یا احسنِ تقویم کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے. انسان نے زمین پر آنے کے بعد اپنی بود و باش رہن سہن تہزیب و تمدن کے لحاظ سے اپنے آپ کو کافی منظم اور بہتر کیا ہے۔ مگر جانور پرندے آج بھی ویسے ہی جنگلوں میں رہتے ہیں جیسے آج سے ہزاروں سال قبل رہتے تھے. یہ انسان کے اشرف المخلوقات اور سب سے ذہین مخلوق ہونے کی علامت ہے. اور اس سب کے باوجود انسان  اللہ رب العزت کی مقرر کی ہوئی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا.

 

تحریر: سلیم اللہ صفدر

 

اگر آپ سائنس و ٹیکنالوجی یا فلکیات کے متعلق مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.