ہماری مسکراہٹ بھی بڑی معنی خیز ہوتی ہے کیونکہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کئی غم اور دکھ ہوتے ہیں جنہیں اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپانا مقصود ہوتا ہے ۔ مسکراہٹ سے ہم زخموں کو چھپاتے ہیں مگر لوگ ہماری مسکراہٹ کا پس منظر نہ جانتے ہوئے ستاتے ہیں ۔ ان تمام تلخ مزاجوں کی ترجمان اداس غزل “یوں زخموں کو چھپاتا ہوں”
سنو لوگو! میں نشتر طنز کے سینے پے کھاتا ہوں
یہ میں جو مسکراتا ہوں یوں زخموں کو چھپاتا ہوں
ہوائیں بےرخی کی تیزچلتی ہیں میری جانب
دیے الفت کے میں جب بھی کبھی اپنے جلاتاہوں
پرندہ ہوں مگر یاری مری شعلوں سے ٹھہری ہے
میں اپنے ہاتھ سے اپنے نشیمن کو جلاتاہوں
ستم گر سب یہ دیتے ہیں صلہ کچھ یوں مجھے یارو
گراتے ہیں وہی مجھ کو کہ جن کو میں اٹھاتا ہوں
ارے لوگو!میں ہوں تنہا کہاں؟ لفظوں سے یاری ہے
کبھی جب چوٹ لگتی ہے میں ان کو ہی بتاتاہوں
بھلاآساں کہاں ان مصرعوں میں حالِ دل لکھنا؟
جگرکی روشنائی سے میں کاغذکوسجاتاہوں