نبھاتے ہیں جو ساتھ مشکل گھڑی میں
بشر ایسے کم ہیں مری زندگی میں
سکوں جن کو ملتا نہیں خسروی میں
وہ کرتے ہیں مسکن کہیں جھونپڑی میں
کوئی راستہ اب دکھا میرے مرشد
گنوایا ہے عقبٰی تری پیروی میں
میں پانی نہ مانگوں کبھی کوفیوں سے
بھلے جان جائے مِری تشنگی میں
سدا فاقہ مستی کا عالم رہا ہے
کیا ہے گزارا فقط گودڑی میں
جو سُر گھولتی ہیں سمندر کی لہریں
نہیں ساز ایسا کسی بانسری میں
دباتے رہے جو ہماری صدائیں
وہی لوگ مارے گئے خامشی میں
میں کرتا رہوں خدمتِ خلق ہر دم
کٹے زندگانی اِسی نوکری میں
نبھاتے ہیں جو ساتھ مشکل گھڑی میں
بشر ایسے کم ہیں مری زندگی میں
شاعری : بابر علی برق