سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ـ بلاول بھٹو زرداری

یہ نظم بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ کے دوران بولے گئے فقرے "اسلام آباد میں کانپپیں ٹانگ رہی ہیں" کے تناظر میں لکھی گئی

0 50

سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

نجانے ہو گیا ہوں اس قدر ڈرپوک میں کب سے

کسی سے بات کرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں سبھی دردیں مگر جونہی

گلے شیخو کے لگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

یونہی بیٹھے بٹھائے یہ وزارت مل گئی جب سے

کوئی بھی حکم سنتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

وہ دن عہد جوانی کے مجھے اب یاد آتے ہیں

تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

میں سارا دن بہت ٹانگیں چلاتا ہوں مگر جونہی

قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

ہر اک مفلس کی پیشانی پہ مہنگائی کا قصہ ہے

کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

میرا اب لال حویلی سے تعلق واجبی سا ہے

مگر جب بھی گزرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

ہزاروں حکمراں موسم میرے روح و بدن پر ہیں

بلاول جب بھی ہنستا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

 

شاعری: سلیم اللہ صفدر

 

وصی شاہ کی اصل نظم سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں

 

اگر آپ مزید مزاحیہ شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.