کہانی وہ اپنی سناتا رہا ہے
یوں غم اپنے دل سے مٹـاتا رہا ہے
کبھی دوست اپنا تھا مانا مگر اب
وہ مجھ پر ہی خنجر چلاتا رہا ہے
فقط میں ہوں دلبر یہ اس نے کہا تھا
وہ اوروں سے بھی دل لگاتا رہا ہے
کبھی پھول، کلیاں ہی برسائے مجھ پر
کبھی راہ میں کانٹیں بچھاتا رہـا ہے
دغا باز، ظالم وفا کیا ہی جانے
جفاؤں سے اپنی ستاتا رہا ہے
دکھاتا رہا مجھ کو معصوم بن کر
مگر چہرہ اصلی چھپاتا رہا ہے
جو دعوے کئے تھے سبھی جھوٹ نکلے
کہ باتوں میں اپنی پھنساتا رہا ہے
میں شمعِ محبت جلاتی رہی ہوں
وہ نفرت میں اس کو بجھاتا رہا ہے
نبھایا نہیں اس نے ربطِ محبت
وہ ماضی کی یادیں بھلاتا رہا ہے
سدا میرے سر پر یہ الزام ٹھہرا
وہ نخرے مرے سب اٹھاتا رہا ہے
فضاء اب نہ شکوہ شکایت کرو تم
وہ دل سے تمہارے بھی جاتا رہا ہے
کہانی وہ اپنی سـناتـا رہا ہے
یوں غم اپنے دل سے مٹـاتا رہا ہے
کلام : فضاء فانیہ
اگر آپ محبت پر مزید شاعری پڑھنا چاہتے ہین تو یہ لازمی دیکھیں