جن دنوں اپنے کوئی یار نہیں ہوتے تھے
اُن دنوں ٹھیک تھے بے کار نہیں ہوتے تھے
جسم سے ہجر اگر رات میں ملنے آتا
درمیاں ہم کبھی دیوار نہیں ہوتے تھے
پہلے ہم لوگ تعلق پہ یقیں رکھتے تھے
پہلے ہم لوگ سمجھدار نہیں ہوتے تھے
اب تو اک پل کی خماری بھی نہیں ہے صاحب
ہم کبھی نیند سے بیدار نہیں ہوتے تھے
اپنے کمرے کی مَیں کھڑکی سے بھی لڑ پڑتا تھا
جب ترے آنے کے آثار نہیں ہوتے تھے
دَور اک ایسا بھی گزرا ہے سنا ہے میں نے
لوگ جب سادہ تھے ؛ فنکار نہیں ہوتے تھے
راز افشا نہیں ہوتے تھے کسی کے عرفان
جب مرے شہر میں اخبار نہیں ہوتے تھے
جن دنوں اپنے کوئی یار نہیں ہوتے تھے
اُن دنوں ٹھیک تھے بے کار نہیں ہوتے تھے
شاعری: عرفان منظور بھٹہ
اگر آپ دوست کے متعلق شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں