روزبروز بڑھتی مہنگائی اور سفید پوش متوسط طبقہ کی حالت زار

Current inflation in Pakistan and its solution

0 201

ملک اس وقت نازک موڑ سے گزر رہا ہے…! جی ہاں ہر دور میں جب بھی عالمی سطح پر سیاستدانوں اور اہلیان اقتدار کو پریشانی بنتی وہ عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ فقرہ مشہور کر دیتے… اور عوام خوش ہو کر ان کے پیچھے لگ جاتی ہے . لیکن پچھلے چھ سالوں کے دوران روز بروز بڑھتی مہنگائی کی صورتحال دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ ملک تو مسلسل نازک دور سے گزرتا رہا…. لیکن عوام بھی اب نازک دور سے گزر رہی ہے.

سب سے زیادہ مہنگائی کا شکار اگر کوئی ہوتا ہے تو متوسط طبقہ ہوتا ہے جو نہ کسی سے کچھ مانگ سکتا ہے اور نہ کوئی اسے کچھ دیتا ہے. غریب آدمی کے اتنا زیادہ اخراجات نہیں ہوتے اور لوگ اس کے گھر کی حالت اور رہائش وغیرہ دیکھ کر اس پر ترس کھا کر اس کو کچھ نہ کچھ دے بھی دیتے ہیں۔ اور اس طرح بڑھتی مہنگائی میں بھی اس کا  کچھ نہ کچھ گزارہ ہو بھی جاتا ہے. نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی سے کچھ نہ کچھ مانگ سکتا ہے اور مانگ لیتا. ہے. جب کہ متوسط طبقے والا پاکستانی نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور نہ کوئی اسے مستحق سمجھتا ہے. اور میری یہ تحریر متوسط طبقے والے احباب کے لئے ہی ہے.

اپنی کمائی میں اضافہ کیجیے کیونکہ مہنگائی کم نہیں ہونی

اب سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ مہنگائی کم نہیں ہونی. اتنے تجربات ہو جانے کے بعد اگر اب بھی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب رات کو سوئیں گے اور صبح اٹھیں گے تو پٹرول، ڈیزل، آٹا، کوکنگ آئل، چینی وغیرہ کی قیمتیں کم ہوچکی ہوں گئیں تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں. آپ کو جتنے سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کا پیسہ نکلوانے، کڑا ہاتھ ڈالنے، سڑکوں پر گھسیٹنے، احتساب کرنے کی بات کرتے نظر آتے رہے ہیں… انہوں نے واقعتاً اپنی حکومت کے اختیارات کا استعمال کر کے مخالف سیاستدانوں کی جیب سے پیسہ نکلوایا ہو گا لیکن وہ ایک سیاستدان کی تجوری سے نکل کر دوسرے سیاستدان کی تجوری تک گیا ہے.. ملکی خزانے سے ہوتا ہوا غریب کی جیب تک نہیں پہنچا.

اگر کچھ پہنچا تو اس صورت میں جب حکومت جانے والی ہو اور اگلے الیکشن کے لئے عوام سے ووٹ لینا ہو… ورنہ ہر آنے والی حکومت اپنے پہلے سال خوب مہنگائی کرتی ہے. غریب کو لوٹتی ہے اور آخری وقت میں وہی ٹیکس کی شکل میں لوٹی ہوئی رقم سبسڈی یا کسی پیکج کی شکل میں واپس کر دیتی ہے. اور متوسط اور غریب طبقہ اس ڈھکوسلے میں ہی رہ جاتا ہے کہ میرا پسندیدہ حکمران جب دوبارہ اقتدار حاصل کرے گا تو میری تقدیر بدل دے گا اور بڑھتی مہنگائی کو کم کر دے گا۔

پاکستانی عوام بڑھتی مہنگائی کا حل کیسے نکالے؟

ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ ایک گھر میں کمانے والا ایک ہوتا ہے اور کھانے والے دس. اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے. دراصل ہر والد اپنی اولاد کے لیے وہ کرنا چاہتا ہے جو اس کے لیے بہتر ہو اور ہر والد یہ سمجھتا ہے کہ میرا بیٹا اگر بچپن سے ہی معیشت کے چکروں میں پڑے گا تو بڑا آدمی نہیں بن سکے گا یعنی اس کا خیال ہے کہ بچے پر معاشی بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے. اور اسے صرف پڑھنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے.

اس لیے چوبیس پچیس سال تک اپنے بیٹے کی ہر ضرورت پوری کرنا والد اپنا فرض سمجھتا ہے اور والد یہی سمجھتا ہے کہ جونہی بچہ تعلیم مکمل کر لے گا تو بڑا افسر بن جائے گا. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں جو روایتی تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی کچھ خاص نہیں ہوتی. اکثر نوجوان پھر بھی جاب لیس ہی رہتے ہیں جب تک کہ وہ کسی مقابلے کی دوڑ میں آگے نہ ہوں.

پھر یہ سوچ والد کی ہی نہیں بیوی کی بھی ہے. کہ میں گھر میں اس لیے آئی ہوں تا کہ گھر چلاؤں نہ کہ مالی حالات میں شوہر کا ہاتھ بٹاؤں. (کچھ خواتین جو جاب کرنا شروع کرتی ہیں تو وہ اپنے کمائے ہوئے پیسے شوہر کو دینے کی روادار نہیں ہوتیں ) یعنی ہر صورت میں کمائی شوہر نے ہی کرنی ہے اور اسی کے پیسوں سے ہی گھر چلنا ہے اور بیوی نے یا تو خود کمانا اور خود ہی کھانا۔۔۔۔ ورنہ گھر چلانا اور وہ بھی صرف شوہر کے پیسوں سے. یہ ہے متوسط طبقے کا المیہ.

اب میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اس بڑھتی مہنگائی کے دنوں میں میاں بیوی دونوں کو مالی معاملات میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے. بیوی گھریلو خاتون ہے تو اسے چاہیے گھر میں بیٹھ کر ٹیوشن، سلائی، کڑھائی جیسا کام شروع کر لے اور اس طریقے سے شوہر کی پریشانی میں کمی لائے کہ یا اپنی فرمائشیں کم کر دے. یا پھر اپنی مختلف فرمائشیں پوری کرنے کے لئے شوہر کو تنگ کرنا بند کر دے. خود کمائے اور خود ہی اپنی خواہشات پوری کرے.

مثلا میاں اور بچوں کی خدمت کے بعد جو وقت فارغ ملتا ہے اس میں کچھ ترتیب لگا کر ٹیوشن، سلائی، کڑھائی یا کوئی آن لائن کام سیکھ لے. اتنا نہیں تو کم از کم اپنے گھر کے سارے کپڑے خود سی لے یا اپنے بچوں کو خود ٹیوشن پڑھائے. اس طرح بچت کرنے پر بھی اس بڑھتی مہنگائی میں کافی حد تک شوہر کو سہارا مل سکتا ہے.

اس کے بعد سب والدین کو چاہیے کہ پندرہ سولہ سال کی عمر سے ہی بچے کی دلچسپی اور اس کی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر کاروبار سکھانا شروع کر دیں . آپ کا بچہ بیشک بڑا ہو کر ڈاکٹر انجینر بن جائے لیکن جو مہنگائی کی صورت حال ہے اس کے اندر آپ کا بیٹا ڈاکٹر انجینر بننے کے باوجود بھی سروائیو ہی کرے گا، کسی پر خرچ کرنے والا نہیں بنے گا جب تک اس کے پاس کوئی مزید اضافی بزنس والا معاملہ نہ ہو.

نوجوان کو والدین یہ سمجھا دیں کہ بیٹا جیب خرچ ہم تجھے دیں گے لیکن اگر تو نے کچھ مزید پیسے کمانے ہوں، اچھا کھانا کھانے کا دل کرے یا کچھ اچھا لباس پہننے کا دل کرے تو آن لائن ارننگ کر کے کما لو. یقین کریں بچہ اپنی نیند قربان کر کے بھی پیسے کمانے کے لیے تیار ہو جائے گا.

اب بزنس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ نوجوان ہوسٹل میں رہے اور ساتھ کسی شاپ پر بھی کام کرے بلکہ بزنس کا مطلب یہ کہ جو نوجوان کا شوق ہے اسی شوق کو سامنے رکھتے ہوئے اسی کے متعلقہ پروڈکٹس کی خرید و فروخت شروع کر دے. اس کے لیے نہ تو کسی مارکیٹ میں دوکان کا کرایہ دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہوسٹل یا گھر سے باہر جانے کی.

آگر آپ کے بچے کا شوق ٹیبل ورک، آفس ورک اور سکرین ورک کا ہے تو اسے کہیں آن لائن ارننگ میں اپنی پسند کا کوئی فیلڈ پکڑے جیسے گرافکس ڈیزاننگ، بلاگنگ، ویب ڈیولپمنٹ، ایس ای او، ایمزون دراز وغیرہ. اور ایک ڈیڑھ سال کے اندر اپنے فیلڈ میں ایکسپرٹ بن جائے . نوجوان کو والدین یہ سمجھا دیں کہ بیٹا جیب خرچ ہم تجھے دیں گے لیکن اگر تو نے کچھ مزید پیسے کمانے ہوں، اچھا کھانا کھانے کا دل کرے یا کچھ اچھا لباس پہننے کا دل کرے تو آن لائن ارننگ کر کے کما لو. یقین کریں بچہ اپنی نیند قربان کر کے بھی پیسے کمانے کے لیے تیار ہو جائے گا.

ہوسٹل یا گھر میں پڑھنے سونے والے نوجوان کو والدین اس لیے ایسا کام نہیں کرنے دیتے کہ اس کی پڑھائی کا حرج ہو گا حالانکہ یہی نوجوان اپنا وقت ضائع کرنے کے اتنے طریقے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے تلاش کر چکا ہے جو کبھی والدین نے سوچے بھی نہ ہوں. اس صورت میں نوجوان کو پیسہ کمانے کا لالچ دیکر اس کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور اسے معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے. یاد رہے جو نوجوان کمائے وہ اپنے اوپر ہی خرچ کرے تو معاملہ چلے گا اور اگر والدین بیٹے کی کمائی خود لے لیں تو نوجوان کا دل ہرگز نہیں کرے گا مزید کچھ کمانے کے لیے.

روزبروز بڑھتی مہنگائی اور سفید پوش متوسط طبقہ کی حالت زار
خریدار ڈھونڈنے کے لیے آپ کو کسی مارکیٹ میں بیٹھ کر آواز لگانے، اشتہار یا بوڑد لگانے کی ضرورت نہیں. اپنی پروڈکٹ کی تصویر بنائیں، اس پر قیمت لکھ دیں یا مناسب قیمت پر خریدیں لکھ کر اپنے واٹس اپ فیس بک انسٹاگرام سٹیٹس پر لگا دیں.

اپنے تعلقات استعمال کر کے پاکستان کے مختلف علاقوں سے اپنی پسند کی چیز یکمشت منگوائیں جو سستی پڑے گی اور اسے مارکیٹ ریٹ سے تھوڑا کم کر کے سوشل میڈیا پر بیچ دیں.

یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بچہ سکرین پر کام کر سکے. تو ایسے نوجوان کے لیے اور بہت راستے موجود ہیں. جو سکرین پر کام کرنے سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں ان کے لوگوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوتے ہیں. ان والدین اور نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے تعلقات استعمال کر کے پاکستان کے مختلف علاقوں سے اپنی پسند کی چیز یکمشت منگوائیں جو سستی پڑے گی اور اسے مارکیٹ ریٹ سے تھوڑا کم کر کے سوشل میڈیا پر بیچ دیں.

خریدار ڈھونڈنے کے لیے آپ کو کسی مارکیٹ میں بیٹھ کر آواز لگانے، اشتہار یا بوڑد لگانے کی ضرورت نہیں. اپنی پروڈکٹ کی تصویر بنائیں، اس پر قیمت لکھ دیں یا مناسب قیمت پر خریدیں لکھ کر اپنے واٹس اپ فیس بک انسٹاگرام سٹیٹس پر لگا دیں.
مثلاً کشمیر سے اخروٹ، کراچی سے کپڑا اور مختلف علاقوں سے شہد سستا مل جاتا ہے. مارکیٹ والے اپنے دوکان کا کرایہ نکال کر مہنگا کر کے بیچتے ہیں. آپ وہ مارجن چھوڑ دیں اور کم قیمت پر اپنی پروڈکٹ بیچنا شروع کر دیں. آپ کا سٹیٹس اگر سو بندے دیکھتے ہیں اور چار بندوں کو بھی آپ کی پروڈکٹ پسند آ گئی تو سٹیٹس لگانے کا حق ادا ہو گیا.

آپ کی پسند یعنی پروڈکٹ کا تعین ہونا سب سے اہم ہے

اگر کسی نوجوان کے پاس موٹر-سائیکل اور موبائل دونوں سہولیات موجود ہیں تو وہ بائیکیا انسٹال کر کے دن کے دو تین گھنٹے خرچ کر کے اپنی آوٹنگ کا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ پیسے بھی کما سکتا ہے.

یاد رہے اس سارے معاملے میں آپ کی پسند یعنی پروڈکٹ کا تعین ہونا سب سے اہم ہے. اس بات میں نہ پڑیں کہ فلاں چیز زیادہ بکتی ہے فلاں کم. بلکہ یہ دیکھیں کہ آپ کا شوق کیا ہے آپ کی گرفت کس چیز پر مضبوط ہے. مثلاً میں اپنی بات کروں تو مجھے کپڑوں کا پتہ نہیں چلتا کہ اچھا ہے کہ برا. اور بہت سارے لوگ ہاتھ لگا کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ یہ اچھا مال ہے اور یہ برا. اس بات کا تعلق تجربے سے کم ہوتا ہے اور شوق سے زیادہ. اس لئے اپنا شوق پہچانیں اور اسی کو اپنا بزنس بنا لیں. پھر آپ یقیناً مقابلے کی دوڑ میں جیت جائیں گے ان شا اللہ.

جب ایک گھر میں چھ بندے کھانے والے اور چار بندے کمانے والے ہوں گے تو یہ بڑھتی مہنگائی زیادہ محسوس نہیں ہو گی اور آپ کی مزید ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی. اس دوران اگر مزید مہنگائی ہوتی ہے تو آپ اپنی پروڈکٹ کی قیمت بھی بڑھاتے جائیں اور مارجن بھی. اور پھر آپ نہ صرف مہنگائی پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ کچھ نہ کچھ پیسے بچا کر اپنے دوست احباب کی مدد بھی کر سکتے ہیں ان پر خرچ بھی کر سکتے ہیں

تحریر: سلیم اللہ صفدر

پاکستان میں مہنگائی اور اس کا حل قاضی کاشف نیاز صاحب کے قلم سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.