وطن والو یہ سب مایوسیاں دل سے نکالو تم قدم مضبوط کر کے دوسروں کو بھی سنبھالو تم حوادث لاکھ حائل ہوں جہاں بھر کی ہو سنگینی جواں جذبے سے
عبداللہ حبیب
تو اگر کہہ دے تو اتنی سی جسارت کردوں اپنے جذبات کے شعلوں کو عبارت کردوں کوئی یوسف تھا جو بازار میں دیکھا میں نے سوچا زنداں کی سلاخوں کو
وہ کیا گردوں تھا۔۔؟(پنجم) ۔ میں پڑھیے جبل طارق سے ٹکراتی خاموش لہروں کا صدیوں قبل انہی پانیوں کو چیر کر اندلس میں داخل ہونے والے فاتحین کے جانشینوں کے
جو دل کو روشن کیے ہوئے تھے وہ سارے دیپک بجھا دیے ہیں سبھی جو پروانے مر رہے تھے الاؤ پر سے اڑا دیے ہیں سکون ان کو،سکون ہم کو
وہ کیا گردوں تھا۔۔؟(قسط چہارم) ۔ میں پڑھیے اندلس میں مسلمانوں کے عہد رفتہ کے نقوش کے حامل تاریخی شہر قرطبہ کا احوال
اک دن تو رفاقت میں بچھڑنا ہی پڑے گا فرقت کی اذیت سے گزرنا ہی پڑے گا انجام بھلا ہجر کا الفت کا عمق ہو کچھ روز مگر دل
وہ غم ڈھالے گا خوشیوں میں جو غم رب کو بتاؤ تو پلٹ جائیں گے سب پانسے ذرا نظریں جھکاؤ تو لگے جو زخم دل پر مندمل کردے گا سب
کدھر سے آیا کدھر گیا وہ مجھے تو بے چین کر گیا وہ ابھی تو چلتا تھا ساتھ میرے اور ایک پل میں بچھڑ گیا وہ یہ آنکھ پر نم
بہت سے لفظ ایسے ہیں جو دل پہ بوجھ ہوتے ہیں زباں پر آ بھی جائیں تو زباں کچھ کہہ نہیں پاتی اگرچہ ہم سبھی محسوس کرتے ہیں زمانے کے
ایک نوجوان کی سرزمین اندلس کی سیر کا احوال کہ جو اپنے آباء و اجداد کی تاریخ سے بالکل واقف نہیں تھا ۔اس نے تاریخ اسلام کے درخشاں باب اندلس
Load More