ایسا کر دے گا ویسا کر دےگا ہم کو یہ خوف آدھا کردےگا میں اسے خود کو سونپ آیا ہوں اب وہ جو بھی کرے گا کر دے گا ایسا
طاہر سعود کرتپوری
دل کے خاک آلود کپڑے پر نکھار آنے لگا تھوڑا تھوڑا اب تمہارا اعتبار آنے لگا کچھ دنوں سےاس کو شاید ہم سمجھ آنےلگے کچھ دنوں سے سنگ کو شیشے
سہمے سہمے ڈرے ڈرے پودے کیوں ہیں آخر ہرے بھرے پودے باغباں ! تم ہمیں بتاؤ گے وقت سے پہلے کیوں مرے پودے کچھ بتا کس لیے پریشاں ہے تیرا
سنو اے چاند تم جب بھی کبھی سورج کے گھر جانا نصیحت ہے، بہت عزت سے جانا، اور نڈر جانا یہی دنیا کی محرومی رہی ہے روزِ اوَّل سے ہنرمندوں کو اس دنیا نے اکثر
بے کسوں کو بےسبب بےموت مرتا دیکھنا یاد ہے تندور میں پھولوں کو جلتا دیکھنا میں چلاجاؤں گا جب دنیا تمہاری چھوڑ کر پھر نہ لوٹونگا کبھی تم خوب رستہ
خوف کے زہریلے پھن ہیں حوصلے کے آس پاس یعنی نقصانات بھی ہیں فائدے کے آس پاس یوں اندھیرے کی سلاخوں سے ہوا آزاد، دیپ چند جگنو رکھ دیئے ہم
اس کی خوشیوں کی خاطر میں کتنی محنت کرتا ہوں خوابوں کو دیواریں اور تعبیروں کو چھت کرتا ہوں ہجر کے دکھ کو سکھ کرنا مشکل ہی کیا ناممکن ہے