بھلا چکا ہوں جسے اُس کو سوچتا کیوں ہے | اردو غزل
Urdu poetry heart touching | Urdu poetry ghazal
بھلا چکا ہوں جسے اُس کو سوچتا کیوں ہے
مِرے حریف سے اِس دل کا رابطہ کیوں ہے
سوال جب بھی اُٹھاتے ہیں اپنی اجرت کا
امیرِ شہر غریبوں پہ چیختا کیوں ہے
یہ کون قیس کی صورت اتر گیا ہے یہاں
جنوں کے شہر میں روشن یہ مقبرہ کیوں ہے
بشر تو اور بھی رہتے ہیں یار بستی میں
تمہارا دل ہی فقط مثلِ آئینہ کیوں ہے
گِراں یہ بات بھی گزری ہے نسلِ آدم پر
شجر پہ "برق” پرندوں کا گھونسلا کیوں ہے
بھلا چکا ہوں جسے اُس کو سوچتا کیوں ہے
مِرے حریف سے اِس دل کا رابطہ کیوں ہے
شاعری : بابر علی برق