اپنا رہا نہ کوئی ،سب ہو گئے پرائے
ہر شخص بے وفا ہے، سب سے خدا بچائے
مطلب کی دوستی ہے ،ہم راز ہیں فریبی
ہر ایک دوست بن کر دل پر چھری چلائے
خود کو بھلا کے ہردم مرتا رہا میں جس پر
ہرلمحہ زندگی میں مجھکو وہی رلائے
میں نے تو دوستوں سے مانگے تھے چاند تارے
مٙکّٙار کالی راتیں ہاتھوں میں لے کے آئے
اک شخص تھا جو مجھ پر دل جان سے فدا تھا
میں غم میں مبتلا ہوں کوئی اُسے بتائے
مجھ پر عیاں ہوئی ہے اک شخص کی حقیقت
اپنائیت کا مجھکو اب خواب نہ دکھائے
اوروں کی بے بسی پر ہنستا رہا جو ہر دم
اس پر جو آ پڑی تو کرتا ہے ہائے ہائے
اذلان اِس جہاں نے دل کر دیا ہے زخمی
اس زخمِ دل پہ آکر مرہم کوئی لگائے
اپنا رہا نہ کوئی ،سب ہو گئے پرائے
ہر شخص بے وفا ہے، سب سے خدا بچائے