سقوط ڈھاکہ ایک تاریخی زخم |اسے یوم سیاہ نہیں بلکہ یومِ وفا کے طور پر منائیں
Fall of Dhaka and Ideology of Pakistan
ہر دسمبر کا آغاز ہوتے ہی ایک عجیب سی اداسی اور دکھ رگ و جاں میں سرایت کرنے لگ جاتا ہے. ایک قوم کا دکھ جو الگ ہو گئی… ایک نسل کا دکھ جو کاٹ دی گئی. جی ہاں. سقوط ڈھاکہ یعنی سانحہ مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس… دو ایسے دکھ ہیں جو دسمبر کی ہواؤں کے ساتھ جسم و روح کے ٹھیک ہوتے ہوئے زخموں کو دوبارہ ادھیڑ دیتے ہیں. آپ اگر بطور قوم سوچیں تو قوم کے دولخت ہونے کا دکھ اور اگر بطور والدین سوچیں تو معصوم بچوں کے سکول میں شہید کر دئیے جانے کا دکھ آپ کے گلشن پر ایک خزاں بن کر چھا جاتا ہے.
16 دسمبر 1971 کا دن جب میرا ملک دو ٹکڑے ہو گیا. دشمنوں کی سازش کامیاب ہوئی… اپنوں کی مفاہمت ناکام ہوئی. زمینی فاصلہ تو پہلے ہی بہت زیادہ تھا…آپس میں رابطہ بھی منقطع ہو گیا. مشرقی پاکستان الگ ہو گیا. اور مغربی پاکستان گہری اداسی میں ڈوب گیا. ہر سال اس سانحہ کی یاد میں شعراء اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں… ادیب ان واقعات کو قلم بند کرتے ہیں اور سقوط ڈھاکہ کے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے.
سقوط ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا دکھ اپنی جگہ پر لیکن وہ جدا ہونے کے بعد ٹوٹا یا ختم نہیں ہوا بلکہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا.
لیکن میری نظر میں یہ یوم سیاہ نہیں… یوم وفا ہے. ضروری نہیں کہ آپ کسی سے جدا ہو جائیں تو اس سے تعلق بھی ختم کر دیں اس سے محبت بھی کم کر دیں. ضروری نہیں کہ جو بندہ آپ کے کنٹرول اینڈ کمانڈ سے نکل گیا وہ آپ کا دوست نہیں رہا یا وہ آپ کے ساتھ مخلص نہیں رہا . سقوط ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا دکھ اپنی جگہ پر لیکن وہ جدا ہونے کے بعد ٹوٹا یا ختم نہیں ہوا بلکہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا. اب وہ نہ ہی ہم سے احکامات لیتے ہیں اور نہ ہی امداد. وہ اپنی ریاست کے اندر مضبوط ہیں… خود کفیل ہیں اور الحمد للہ ابھی تک ہم سے محبت بھی کرتے ہیں.
اور یہ بات کوئی عجیب بھی نہیں. ہمارے معاشرے میں کتنی ہی ایسی مثالیں موجود ہیں. چھوٹا بھائی شادی کے بعد اپنا گھر الگ بنانا چاہتا ہے … بڑا بھائی جوائنٹ فیملی سسٹم کے فوائد بتا کر کوشش کرتا ہے میری حکومت سارے گھر پر رہے لیکن والدین کی نظر میں وہ سب برابر ہی ہوتے ہیں. اب اگر چھوٹا بھائی محلے داروں کی باتوں اور جوائنٹ فیملی سسٹم سے تنگ آ کر ایک انتہائی قدم اٹھا کر الگ گھر بنا بھی لیتا ہے اور سروائیو بھی کر جاتا ہے تو وہ والدین کی نظر میں غدار نہیں ہو جاتا . وہ گھر کا فرد ہی رہتا ہے. والدین اسے اپنے جگر کا ٹکڑا ہی سمجھتے ہیں، اسے اپنا ہی سمجھتے ہیں اور اسے اپنا ہی سمجھنا چاہیے.
قیام پاکستان کے بعد ہی چار وزراء ایسے ہیں جن کا تعلق بنگال سے تھا
ایسا بھی نہیں کہ پاکستان نے ان کا ہمیشہ استحصال کیا ہو اور ان کے حقوق سے چشم پوشی کی ہو. قیام پاکستان کے بعد ہی چار وزراء ایسے ہیں جن کا تعلق بنگال سے تھا. خواجہ نظام الدین دوسرے، محمد علی بوگرہ تیسرے، حسین شہید سہروردی پانچوں وزیراعظم تھے جن کا تعلق بنگال سے تھا . اور اس کے بعد نورالامین آٹھویں وزیر اعظم بھی بنگال سے تعلق رکھتے تھے جن کے دور اقتدار میں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہو گیا. اس لئے نہ ہی بات اہل بنگال کے حقوق ضبط کرنے کی تھی اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ان کی نفرت کی… بات دشمن کی سازش اور درمیانی فاصلے کی تھی جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا.
میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ مکتی باہنی کی سازشوں کے ذریعے پروان چڑھائے گئے قومی تعصب کے علاوہ پاکستان میں کس کس نے بنگلہ دیش کو الگ ملک بنانے پر ابھارا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو ہونا تھا ہو گیا… الگ ملک بن گیا اور سروائیو بھی کر گیا. تو اس صورت میں ہمیں رونے پیٹنے کی بجائے ان کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے. ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنی چاہیے. وہ اگر الگ ہو کر خوشی سے رہ رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کی خوشی میں شریک رہنا چاہیے. اور انہیں اپنا بھائی ہی سمجھنا چاہیے.
درمیانی فاصلے کے علاوہ اور کچھ بھی ایسا نہیں جو ہمیں آپس میں جدا رکھ سکے. ہمارا دین ایک… ہمارا رسول ایک… ہمارا نبی ایک… ہمارا قرآن ایک.. اور ہمارا دشمن بھی ایک….!
آج بھی آپ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کو دیکھ لیں… وہ پاکستان کے ساتھ اظہار محبت کرتے نظر آئیں گے… پاکستان کے پرچم کو اپنے سینے اور ماتھے پر سجاتے نظر آئیں گے. آخر کیوں؟ اس لیے کہ وہ ماضی کی رنجشوں کو بھلا چکے ہیں.. وہ مقدر کے اس فیصلے پر راضی ہو چکے ہیں. وہ اپنا اصلی دوست اور اپنا اصلی دشمن پہچان چکے. اس لئے وہ ابھی تک ہم سے محبت کرتے ہیں.
محبت اس لیے کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ درمیانی فاصلے کے علاوہ اور کچھ بھی ایسا نہیں جو ہمیں آپس میں جدا رکھ سکے. ہمارا دین ایک… ہمارا رسول ایک… ہمارا نبی ایک… ہمارا قرآن ایک.. اور ہمارا دشمن بھی ایک….!
بھارت کو میچ میں شکست ہوتی ہے تو بنگلہ دیش خوشی کا اظہار کرتا ہے… پاکستان کو فتح ہوتی ہے تو بنگلہ دیش کے نوجوان ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں لیکن افسوس ہم آج بھی اہل بنگال کے ساتھ عجیب رویہ اپناتے ہیں.
اب اگر قومی تعصبات کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو اتنے قومی و لسانی جھگڑے ہمارے ملک میں نہیں جتنے بھارت میں ہیں. وہاں تو ایک برتن میں پانی بھی نہیں پینے دیا جاتا. لیکن اس سب کے باوجود ان تعصبات کو ہمارے ہاں اتنا نہ ہی کیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے ہوا دی جاتی ہے جتنا کہ بھارت کوشش کرتا آ رہا ہے. بھارت میں کتنی ہی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن ہمارا میڈیا ان پر خاموش رہتا ہے جب کہ پاکستان میں ہر علیحدگی پسند تحریک کے پیچھے آپ کو بھارت کھڑا ہوا نظر آئے گا. اور اعلانیہ طور پر نظر آئے گا.
یہ نظریہ پاکستان صرف پاکستان ہی نہیں بنگلہ دیش کشمیر الغرض پورے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے. اور یہی تکمیل پاکستان ہے.
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو حقیقت تو یہ ہے کہ تمام برصغیر پاک و ہند دراصل مسلمانوں کا تھا. مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی. اور یہ وہ دور تھا جب ہندو مسلمان سب سکون کی زندگی گزار رہے تھے. انگریزوں کی مداخلت کے بعد مسلمان کی حکومت ختم ہوئی لیکن جب وہ واپس گئے تو دوبارہ ہمیں ہمارا ملک تو مل گیا لیکن وہ ملک پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا… ایک نظریہ کی بنیاد پر ملا.
ہم اس نظریہ یعنی نظریہ پاکستان پر متحد تھے تو قیام پاکستان عمل میں آیا…ہم اسی نظریہ پر متحد رہتے یعنی لسانی و علاقائی تعصب کا شکار نہ ہوتے تو ہمیں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں شکست سے دوچار نہ ہونا پڑتا. اپنا آدھا ملک نہ گنوانا پڑتا .بلکہ ہم دونوں کے درمیان جو بھارت تھا اسے بھی پاکستان میں شامل ہونا پڑتا اسی نظریہ کی بنیاد پر. لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوا کیونکہ ہم نے نظریہ پاکستان کو چھوڑ کر علاقائی تعصبات کو پروان چڑھایا.
یوم سیاہ کو یوم وفا میں تبدیل کریں
جب ہم اسی نظریہ پر دوبارہ متحد ہوں گے تو قیام پاکستان کی طرح تعمیر پاکستان اور پھر تکمیل پاکستان بھی ممکن ہو سکے گی. نظریہ پاکستان صرف بقائے پاکستان نہیں بلکہ تعمیر پاکستان اور تکمیل پاکستان بھی ہے. یہ نظریہ پاکستان صرف پاکستان ہی نہیں بنگلہ دیش کشمیر الغرض پورے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے. اور یہی تکمیل پاکستان ہے.
اس لئے اس یوم سیاہ کو یوم وفا میں تبدیل کریں. سب ملکر عہد کریں کہ جدا ہونے کے باوجود آپس میں اسی محبت کو قائم و دائم رکھیں گے جس محبت اور جس نظریہ کی بنیاد پر ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا… انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی تھی….!
اور آج بھی اگر برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے کسی غاصب دشمن سے آزادی حاصل کرنی ہے تو اسی نظریہ کی بنیاد پر ممکن ہے…ورنہ نہیں!
جدا ہم ہو گئے لیکن محبت کم نہیں ہو گی | سقوط ڈھاکہ پر شاعری