یہ دنیا کا میلہ تو میلا بہت ہے
مرا دل تو اس سے ہاں دہلا بہت ہے
نہ دیکھی کبھی کوئی بھی خیر اس میں
مگر شر اسی سے ہاں پھیلا بہت ہے
بھلا کر ولایت کے پیغام کو بھی
اندھیرے میں اس نے دھکیلا بہت ہے
یہ عشق مجازی کو چھوڑو بھی اب تم
کہانی میں مجنوں و لیلی بہت ہے
لگے فکر آگے کی سب منزلوں کی
کہ دنیا کا یہ تو جھمیلا بہت ہے
کرو توبہ سب ھی منا لو خدا کو
گناہوں میں دل کیوں یہ بہلا بہت ہے؟
معافی ملے گی ذرا آ کے دیکھو
ندامت کا آنسو یہ پہلا بہت ہے
یہی تو صدا ھے سبھی اولیاء کی
کہ اللہ ہمارا اکیلا بہت ہے
یوں لکھتے رہو شاعری تم بھی اظہر
پیام محبت یہ پھیلا بہت ہے
یہ دنیا کا میلہ تو میلا بہت ہے
مرا دل تو اس سے ہاں دہلا بہت ہے
فانی دنیا سے دل نہ لگانا اس کو دل میں کبھی نہ بسانا | خوبصورت اردو شاعری
[…] یہ دنیا کا میلہ تو میلا بہت ہے | دنیا کی بے ثباتی اور رب ک… […]