طویل مدت گزار دی ہے فراق کا کب زوال ہوگا
یہ ہجر کے دن کٹیں گے اور کب محبتوں کا وصال ہوگا
ہر ایک کوچہ لہو سے تر ہے کوئی نہیں جو حساب مانگے
بس اک قیامت کا ہے بھروسہ کہ قاتلوں سے سوال ہوگا
بتاؤ کیوں کر جلائے غنچے بتاؤ کیوں کر مٹائے قریے
خدائی دعوے جو کر رہے ہیں خدا کا ان پہ جلال ہوگا
حصار قاتل میں تنہا اک میں، کوئی نہیں جو مدد کو آئے
نگاہیں میری تلاشتی ہیں کسی کو میرا ملال ہو گا
میں اپنے من کے ہی تخلیے میں تجھے اے ہمدم کبھی نہ بھولوں
اگرچہ راہیں کٹھن ہیں لیکن نہ جذبہ اپنا نڈھال ہوگا
عداوتوں کی ہی کوکھ سے پھر محبتوں کی نمود ہوگی
خزاں کی تلخی کو جھیل لو گے تو اگلا موسم کمال ہوگا
طویل مدت گزار دی ہے فراق کا کب زوال ہوگا
یہ ہجر کے دن کٹیں گے اور کب محبتوں کا وصال ہوگا
شاعری : عبداللہ حبیب