نیند آتی نہیں بھوک لگتی نہیں
زندگی میری بن تیرے کٹتی نہیں
جو قدم بھی رکھو سوچ کر ہی رکھو
یہ محبت کی بازی پلٹتی نہیں
ایک ہی بات کو جھوٹ کہتی ہے وہ
اور کسی بات سے وہ مکرتی نہیں
بس اشاروں سے ہی بات ہو گر تو ہو
وہ پری آسماں سے اترتی نہیں
تم سے پہلے بھی گزرے کئی لوگ ہیں
یہ گلی اس گلی سے گزرتی نہیں
اس پہ سایہ ہے صفدر میرے پیار کا
دھوپ میں بھی وہ رنگت بدلتی نہیں
نیند آتی نہیں بھوک لگتی نہیں
زندگی میری بن تیرے کٹتی نہیں
(سکول لائف کے دوران میرے قلم سے لکھی گئی اداس دل کی درد بھری آواز۔۔۔۔ جب ہوم ورک اور نیند کے درمیان جنگ میں جیت ہمیشہ دکھی شاعری کی ہوا کرتی تھی۔)