
”فلم کی نیگیٹو مارکیٹنگ نہ کریں۔ جہاں دو کو پتہ ہے، وہاں دس کو بتانے کی کیا ضرورت ہے۔“
یہ بات اکثر تو دل کے مریض کر رہے ہیں، زادهم الله مرضًا!لیکن کچھ ہمدرد بھی پورے خلوص کے ساتھ کر رہے ہیں۔ مگر ان کی بات بصیرت اور فقہِ انکار سے بہت دور ہے۔
اولًا : برائی محدود ہو تو رد محدود ہوتا ہے۔ مہد (گود) میں ہو تو سکوت اور اعراض رَوا ہوتا ہے۔ گھر میں ہو تو بات گھر تک رہتی ہے۔ خفیہ ہو تو پردہ رکھا جاتا ہے۔ اور علانیہ ہو تو رد بھی علانیہ ہوتا ہے۔ سو جس برائی کے فروغ کیلیے عالَمِ کفر پوری قوت سے کوشاں ہو، اس سے اعراض کرنے کا مشورہ کیونکر درست ہو سکتا ہے!
ثانیًا : برائی منتشر اور عام ہو تو جہالت کے سبب عامۃ الناس کے اس میں واقع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی حقیقت بیان کر کے اتمامِ حجت کرنا ضروری ہے، تاکہ فطری حیا اور شرافت پر قائم لوگ اس سے دامن بچا لیں۔
ثالثًا : برائی پر انکار کے اہم ترین مقاصد میں ایک ”إغاظة أهل المنكر“ بھی ہے۔ یعنی برائی کے مائی باپوں کو تکلیف پہنچانا، انہیں غصہ دلانا۔ اور انہیں واضح کرنا کہ تمہارا میدان صاف نہیں ہے، بلکہ تمہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
باقی یہ بات درست ہے کہ تجسس عمومی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ جس چیز سے منع کیا جائے، طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ چیز انکارِ منکر سے مانع ہے؟! قطعًا نہیں۔ چند وجوہات اوپر عرض کر دی ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
فلم بینی کے شر سے زیادہ LGBT کا شر ہے
اسی طرح یہ بات کہ برائی پر بالعموم انکار ہونا چاہیے۔ جب شوبز انڈسٹری ساری ہی شر ہے، تو ایک فلم کی تخصیص کیوں؟! اس پر عرض ہے کہ بعض منکرات لواحِق (منسلک چیزوں) کی بنا پر یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کا معین رد کیا جائے۔ درپیش صورت میں فی نفسہ فلم بینی کے شر سے زیادہ اس نحوست (LGBT) سے تنبیہ و تحذیر مقصود ہے جس پر یہ مخصوص فلم مشتمل ہے۔
اس لئے یہ فلم کی نیگیٹو مارکیٹنگ کم اور اسے روکنے اور اس کے شر سے عوام کو اگاہ کرنے کی کوشش زیادہ ہے۔
واللہ أعلم.