کہا اس نے بتاؤ کیا مجھے تم بھول جاؤ گے؟ شکوہ جواب شکوہ
ایک مظلوم قوم کا شکوہ اپنے ایک مسلمان دوست ملک کے ساتھ اداس شاعری کی شکل میں
کہا اس نے بتاؤ کیا مجھے تم بھول جاؤ گے؟
کہا میں نے کوئی شاہ رگ کو کیسے بھول سکتا ہے
کہا اس نے کہ پھر شاہ رگ بچاتے کیوں نہیں آخر
کہا کہ پاؤں اور بازو بھی کب آزاد ہیں میرے؟
کہا اس نے کہ آخر کب تلک یوں وقت گزرے گا
کہا میں نے کہ مشکل فیصلوں میں وقت لگتا ہے
کہا اس نے کہ ستر سال کا کیا وقت تھوڑا ہے؟
کہا القدس کی فتح پہ صدیاں بیت جاتی تھیں
کہا اس نے تیرے ایوان میں دشمن ہمارے ہیں
کہا کہ نعرہ خودمختاری کا میں بھی تو سنتا ہوں
کہا اس نے بتاؤ ابن قاسم آئے گا کب تک
کہا میں نے اسے اب ابن قاسم یوں نہیں آتے
کہا کہ بے کسوں کی اب مدد کیوں تم نہیں کرتے
کہا میں نے اسے کہ یہ مدد چھپ کر بھی ہوتی ہے
کہا اس نے کہ آخر کیا مدد کر پاؤ گے میری
کہا میں نے تمہیں برہان وانی کی ضرورت ہے
کہا اس نے میرے قائد ہمیشہ قید رہتے ہیں
کہا میں نے یہی موسم ہمارے ہاں بھی اترا ہے
کہا کہ کس لیے آخر تم ان کو قید رکھتے ہو
کہا محسن تمہارے دنیا کو اچھے نہیں لگتے
کہا اس نے بتاؤ کیا مجھے تم بھول جاؤ گے؟
کہا میں نے کوئی شاہ رگ کو کیسے بھول سکتا ہے
کہا خاموش رہ کر ظلم کا کیوں ساتھ دیتے ہو
کہا مسئلہ تیرا اقوام عالم میں اٹھایا تھا
کہا اس نے کہ اس کے بعد اتنی خامشی کیوں ہے
کہا میں نے… "خموشی کی زباں بھی ایک ہوتی ہے”
کہا اس نے کہ کیوں تم اس قدر بیزار ہو مجھ سے
کہا بیزاری اور خاموشی میں کچھ فرق ہوتا ہے
کہا کہ مر گئے ہم تو نہ بچ پاؤ گے تم خود بھی
کہا کہ ساتھ اب تک اس لیے تیرا نہیں چھوڑا
کہا کہ اس طرح کے ساتھ کا کیا فائدہ ہم کو
کہا یہ وقت بتلائے گا کتنا فائدہ پہنچا….!
کہا اس نے کہ تب تک ہم کو ہندو راکھ کر دیں گے
میں اس کے بعد کتنی دیر تک کچھ بھی نہیں بولا
شاعری : سلیم اللہ صفدر

اگر آپ مزید مناجات، حمدیہ اشعار، نعت شریف یا شان صحابہ پر کلام پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
بہت شاندار بھائی
بہت شکریہ