کٹھن ہے راہ وفا اور عجب عدو کے ستم | جذبہ حریت پر انقلابی اشعار
کٹھن ہے راہ وفا اور عجب عدو کے ستم
مگر کبھی بھی نہ ہو پائیں کم ہمارے عزم
میرے چنار کی بستی پہ آتش و آہن
کریں گے درد کی اور کتنی داستانیں رقم
اگر ہے جبر و اذیت کی موج زوروں پر
چٹان بن کے مقابل رہے ہمارا جسم
مٹا سکے نہ کوئی ہم کو جب ہوں شیر و شکر
ملا دے کلمہ توحید دل سے دل باہم
مایوس رات کے اندھیرے اب سمٹ جائیں
نوید صبح آزادی کی اترے جب شبنم
سنو ہمارا ہے کشمیر اور سارا ہے
نہیں ہٹیں گے کبھی اک بھی انچ پیچھے ہم
یہ مٹی لاکھوں شہیدوں کے جسم کی ہے امیں
جما نہ پائے کوئی بھی یہاں غلیظ قدم
کٹھن ہے راہ مگر منزلیں بھی دور نہیں
وطن کے لوگو کبھی مت مایوس ہونا تم
آزادیوں کا سفر اب کبھی نہ رک پائے
نگہ بلند رہے اور یقین ہو پیہم
لہو پکار اٹھے گا جو سرحدوں پہ بہا
بہ رنگِ صورتِ طوفانِِ نیلم و جہلم
نہیں بچے گا کوئی بت پرست اب صفدر
اٹھے جو ہاتھ میں تھامے توحید کا پرچم
کٹھن ہے راہ وفا اور عجب عدو کے ستم
مگر کبھی بھی نہ ہو پائیں کم ہمارے عزم
شاعری :سلیم اللہ صفدر
اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں