جینا ہوا محال، دسمبر کی رات میں | دسمبر کے مہینے کے حوالے سے اردو شاعری
December poetry in Urdu
جینا ہوا محال، دسمبر کی رات میں
آیا ترا خیال، دسمبر کی رات میں
بے چینیاں ، وبالِ فسوں، تلخیِ خیال
کیا کیا نہیں کمال،دسمبر کی رات میں
جلتے ہوئے چراغ پہ پانی نہ ڈال دوست
مت کاٹ میری کال، دسمبر کی رات میں
یہ غم جلا رہا ہے، مرے پاس تھے عزیز
اِس وقت، پچھلے سال، دسمبر کی رات میں
ساقی شراب لا کے فقیرانِ دہر کے
کچھ تو وبال ٹال، دسمبر کی رات میں
معراجِ لطف و حسرتِ مردانِ شہر ہے
دہکا ہوا جمال، دسمبر کی رات میں
من کر رہا ہے بعدِ تمنائے سوزِ ہجر
ہو آمدِ وصال دسمبر کی رات میں
کتنی عجیب بات ہے تیرے خیال نے
کوئی چلی نہ چال دسمبر کی رات میں
یادوں پہ انگلیاں نہ اٹھا چاند دیکھ کر
غم کا نہ کر سوال دسمبر کی رات میں
ڈالے ہوئے ہیں مل کے محبت سے دل نے بھی
کچھ رنجشوں کے جال دسمبر کی رات میں
اے خوش لقب تمھاری جدائی کا پل بہ پل
بڑھتا رہا ملال دسمبر کی رات میں
گھڑیاں نہ ختم کر سکیں جوشِ جنونِ عشق
ہے خون میں ابال دسمبر کی رات میں
دیوانے انتظام بہ تکریمِِ سالِ نو
ڈالیں گے اب دھمال دسمبر کی رات میں
اے نازنینِ شہرِ لطافت کوئی نہیں
تیری یہاں مثال دسمبر کی رات میں
پیوند جو تھے جون کی گرمی میں کٹ گئے
گریہ ہوا حلال دسمبر کی رات میں
بڑھتی ہیں تیز تیز تری سرد مہریاں
دھڑکن کو ہے زوال دسمبر کی رات میں
آ کر اے جانِ ہستِ جنوں، روحِ جسمِ سرد
مردے میں جان ڈال، دسمبر کی رات میں
حسرت نہ رکھ کسی کی دلِ بے نشاط میں
مت کوئی آس پال دسمبر کی رات میں
رسماََ ہی ایک بار ہمیں مسکرا کے دیکھ
محفل میں خوش خصال، دسمبر کی رات میں
مجبور کر گئے کہ کریں رقص دم بخود
طبلے کے ساز و تال، دسمبر کی رات میں
دل دل میں سوچتا ہوں دوا لاتے میرے دوست
جو دیکھتے نڈھال دسمبر کی رات میں
ناآشنائے عشق کو کیسے بتاؤں میں
مغرب میں ہے شمال، دسمبر کی رات میں
دعویٰ ہے سدِبابِ اذیت کا گر تمھیں
غم کا بھی حل نکال دسمبر کی رات میں
جذبوں کی اوٹ لے کے اے جاں اپنے آپ پر
کیچڑ نہیں اچھال دسمبر کی رات میں
آدر یہ بات جا کے صنم سے کہے کوئی
کر درد کو بحال دسمبر کی رات میں
جینا ہوا محال، دسمبر کی رات میں
آیا ترا خیال، دسمبر کی رات میں