ڈال دے وہ مہرباں کب زندگی کشکول میں
کاسہءِ امید رکھنا ہر گھڑی کشکول میں
لوٹتے ہیں گھر کو جب حالات کے مارے فقیر
بھر کے لاتے ہیں فقط شرمندگی کشکول میں
مشعلِ فاقہ کشی گھر میں جلی تو یوں ہوا
آ گئی ہمدم سمٹ کر روشنی کشکول میں
بھول جاتے اپنی ہستی شہر کے مغرور لوگ
ڈالتے گر وہ نگاہِ سرسری کشکول میں
بھوکے بچوں کی نگاہیں ڈھونڈنے نکلیں جو برق
ٹھوکریں تو تھیں مگر روٹی نہ تھی کشکول میں
ڈال دے وہ مہرباں کب زندگی کشکول میں
کاسہءِ امید رکھنا ہر گھڑی کشکول میں
شاعری : بابر علی برق
اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں