یونان کشتی حادثہ :والدین بچوں کو بیرون ملک کیوں بھیجتے ہیں؟
اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے دن رات محنت کرنے والے اور پریشان رہنے والے والدین کے لئے ایک رہنما تحریر
یونان کشتی حادثہ اور اس میں فوت ہونے والے پاکستانیوں کی خبر سنی۔ دل بہت رنجیدہ ہوا۔ اللہ رب العزت لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ میں نے اس حوالے سے کئی مرتبہ سوچا کہ پاکستان ایک زرخیر ملک ہے، زرعی ملک ہے ، تجارتی ملک ہے۔ اور یہاں کے نوجوانوں میں ہر قسم کا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود والدین کی ترجیح بیرون ملک ہی کیوں ہوتی ہے۔ لخت جگر کو ہزاروں میل دور بھیج کر ملنے والے ڈالر اپنی چھت کے نیچے رات گزار کر ملنے والے روہے سے کیوں زیادہ قیمتی لگتے ہیں؟
نہایت افسوس کے ساتھ کہ پاکستان میں آج سے نہیں بلکہ عشروں سے بیرون ملک نوکری کرنا قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ اور والدین خوشی سے بچوں کو نہ صرف پڑھنے کے لیے بلکہ نوکری کرنے کے لیے باہر بھیجتے ہیں. اور کیوں بھیجتے ہیں؟ اس کے پیچھے والدین کی دو تیں خواہشات یا مجبوریاں چھپی ہوتی ہیں میرے خیال میں جو ہر جگہ بیان بھی نہین کی جا سکتیں۔ اور ان خواہشات کی تکمیل یونان کشتی حادثہ جیسی شکل میں سامنے آتی ہیں۔
نوجوان باہر جا کر بیشک مستری مزدور کا کام کرتا ہو وہ قبول ہے. لیکن وہی نوجوان اپنے ملک اپنے شہر یا اپنے محلے میں یہ کام کرے وہ قبول نہیں
پہلی یہ کہ والدین اپنی اولاد کو ہمیشہ اپنے سے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اور ان کی نظر میں بہتر ہونے کے لیے ملک سے باہر ہونا ضروری ہے. دور کے ڈھول سہانے والی بات کہ نوجوان باہر جا کر بیشک مستری مزدور کا کام کرتا ہو وہ قبول ہے. لیکن وہی نوجوان اپنے ملک اپنے شہر یا اپنے محلے میں یہ کام کرے وہ قبول نہیں.
بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ وہاں ڈالر ملتے ہیں اور لاکھوں کمائے جا سکتے ہیں۔ جب کہ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اسی ڈالر کمانے کی حرص نے ایک نوجوان سے اس کے ماں باپ چھین لیے… اس کی جوانی چھین لی… وہ کسی کے لیے چھت بن سکتا تھا، اس کے سر پر ایک چھت تھی لیکن اب وہ بیرون ملک پتا نہیں کیا کھاتا ہے کیا پیتا ہے کہاں سوتا ہے… یہ سب کچھ ڈالر کی چمک میں گم ہو گیا.
دوسری وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ والدین خود پسند نہیں کرتےکہ ان کا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے رہے. ہے ناں حیرت کی بات؟ جی ہاں آپ کہیں گے یہ کیسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو خود سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ تو میرا جواب ہے کہ ایسے والدین ہر جگہ موجود ہیں. لیکن وہ خود منہ سے اپنی اولاد کو دھکے دے کر گھر سے نہیں نکالتے. بلکہ وہ ایسا ماحول اور ایسی رائے عامہ پیدا کر دیتے ہیں کہ غیرت مند اور اڑیل نوجوان خود گھر چھوڑ جانے پر تیار ہو جاتا ہے.
جو باپ سارا دن محنت کر کے اپنے بیٹے کا مستقبل روشن اور محفوظ نہیں کر سکا اس کی محنت کس کام کی؟
والدین سے ہر آنے والے مہمان رشتہ دار پوچھتے رہتے ہیں آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے۔۔۔؟ بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ تو والدین کے پاس اگر مناسب جواب ہو تو ٹھیک۔ نہ ہو تو اسے گھر سے باہر بھیجنے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے. تا کہ اگلی بار جب مہمان آئیں تو بیٹا ان کے سامنے نہ ہو۔ اور وہ رشتہ داروں کے پوچھنے پر ان کو یہ کہہ سکیں کہ جی ہمارا بیٹا تعلیم حاصل کرنے ہا جاب کرنے کے لیے باہر چلا گیا ہے. اور رشتہ دار خوش ہو جائیں کہ واہ جی آپ کے بیٹے کا فیوچر تو بہت برائٹ ہے.
تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بیٹا اپنے اردگرد کے دوستوں محلے داروں سے سن سن کر ضد کرنے لگ جائے کہ میں نے بھی باہر جانا ہے۔ اور والدین اس کی اس ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔ غلطی اس میں بھی والدین کی ہی ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے معاشرے میں اپنے ملک میں مصروف یا معزز نہیں بنا سکے۔ اور بیٹا شہرت دولت پانے کے چکر میں والدین سے دور ہونے کے لئے راضی ہو گیا۔ حالانکہ جو باپ سارا دن محنت کر کے اپنے بیٹے کا مستقبل روشن اور محفوظ نہیں کر سکا اس کی محنت کس کام کی؟
یہ ہیں وہ تلخ حقائق جو پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں. ہمیں لازمی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر والدین بچوں کو اس قابل کیوں نہیں بنا پاتے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں. اور انہیں اپنے ملک سے دور کیوں کرتے ہیں. حالانکہ اس ملک میں بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جو ملنے والی جابز ہیں یا ہائی سٹینڈرڈ بزنس ہیں وہ بھی تو پاکستان کے ہی لوگوں کے پاس ہیں.
کامیاب بزنس مین بننے کے لیے آپ کا پاکستانی ہونے کی بجائے برطانوی، امریکی یا فرانسیسی ہونا ضروری نہیں۔ یونان کشتی حادثہ جیسے سانحات سے بچنا ضروری ہے
ایسا تو بالکل نہیں کہ کامیاب بزنس مین بننے کے لیے آپ کا پاکستانی ہونے کی بجائے برطانوی، امریکی یا فرانسیسی ہونا ضروری ہے. بالکل اسی طرح پاکستان کے کسی بھی ادارے میں اچھی نوکری حاصل کرنے کے لیے بھی بالکل ضروری نہیں کہ آپ کا بیٹا لازمی انگلینڈ سے تعلیم یافتہ ہو. ہر سال ہر یونیورسٹی سے سینکڑوں نوجوان فارع تحصیل ہوتے ہیں، بیشک ان میں دس بارہ نوجوان ہوں گے جنہیں اچھی جابر ملتی ہوں گی۔ لیکن وہ اچھی جابز والے نوجوان اسی پاکستانی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج سے ہی فارغ التحصیل ہوتے ہیں. انگلینڈ کا ویزا حاصل کرنے کے بعد تو نہیں.
آپ نے یہ بات بہت سنی ہو گی کہ پاکستان میں رہتے ہوئے فیوچر برائٹ نہیں ہو سکتا، پاکستان میں رہتے ہوئے کامیاب ہونا مشکل ہے تو میرا سمپل سوال ہے کہ آخر جو پاکستان میں رہتے ہوئے کامیاب ہیں اور برائٹ فیوچر کے حامل ہیں کیا وہ سب غیر پاکستانی ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں. یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا بیٹا کسی معاملے میں کمزور ہو، اور کسی معاملے میں مضبوط۔ اور آپ نے اسے اس کی کمزوری والے فیلڈ میں پھینک دیا ہو پھر تو وہ واقعی کمزور ہی رہے گا۔۔۔ چاہے باہر بھی کیوں نہ چلا جائے
آپ کا بیٹا چاہے تعلیم کے میدان میں ہے چاہے بزنس کے میدان میں… وہ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو تو سمجھیں کامیابی پکی
تو کہنے کا مطلب یہ کہ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ کی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے پاکستان سے باہر جانا ضروری ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کا بیٹا چاہے تعلیم کے میدان میں ہے چاہے بزنس کے میدان میں… وہ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو تو سمجھیں کامیابی پکی. اور اگر وہ مقابلہ نہیں کر سکتا تو پھر اسے بیشک انگلینڈ بھیج دیں یا امریکہ ۔۔۔اس نے وہاں جا کر پیسے تو کما لینے ہیں لیکن کام وہی کرے گا جو اسے آتا ہے. گھر والوں سے جدائی الگ ، اس کی وہاں تنہائی الگ، اور دن رات کی دہائی الگ.
اس لیے میرا تو سب والدین کو مشورہ ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم یا نوکری کے لئے ملک سے باہر بھیجنے کی بجائے اسے ملک میں ہی محنت کرنے کا عادی بنائیں. جاب کرے یا بزنس اس کی خواہش کے مطابق طے کریں۔ لیکن اسے اپنے اردگرد والے ہم عمر نوجوانوں سے مقابلہ کرنے کی جرات دیں تا کہ یونان کشتی حادثہ کی غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگا کر کشتیوں میں جانے اور پانی کی موجوں کا شکار ہونے کی کوشش نہ کرے.
تدبیر آپ کریں باقی اللہ پر چھوڑ دیں.
تحریر: سلیم اللہ صفدر
فوجی کی ٹانگ ناپنے کی بجائے انڈینز سے اپنی عقل اور ہنر ناپ کر دیکھیے۔