قیامت صغریٰ جو میں نے دیکھی | 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی کچھ جھلکیاں

قیامت خیز زلزلے کا انکھوں دیکھا حال غنی محمود قصوری کے قلم سے

4 4

لفظ قیامت سنتے،پڑھتے ہی ذہن میں وہ منظر آتا ہے کہ جو ناقابل بیان، ناقابل تحریر ہے۔ تاہم عام طور پہ بڑے بڑے سانحات کو قیامت صغریٰ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے

8 اکتوبر 2005 رمضان المبارک کے تیسرے روزے سننہ 1426 ہجری کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی قیامت صغریٰ کا منظر تھا کہ جب 7.6 Mw شدت کا زلزلہ آیا اور 80 ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے
راقم اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے
میں اپنی ہڈ بیتی قصور شہر سے شروع کرونگا کہ جہاں سے میں نے ہلتے درو دیوار دیکھے اور وہاں سے پھر زلزلہ سے تباہ حال بالاکوٹ تک کا سفر کیا اور بالاکوٹ میں شب و روز گزارے

میں نے طالب علمی کو نیا نیا خیر آباد کہا تھا اور مستقبل کی سوچوں میں کبھی کہاں تو کبھی کہاں رہتا تھا اور
اس دن 8 اکتوبر 2005 بوقت صبح کو بھی ایک دوست کے پاس ایک گاؤں میں اس کی آٹا چکی و آرا مشین پہ موجود تھا کہ 8 بج کر 50 منٹ کے قریب در و دیوار ہلنے لگے۔

عام طور پہ آٹا چکی میں ایسی واہبریشن چلتی رہتی ہے مگر یہ عام حالات سے کئی گنا زیادہ تھی جس کے باعث میں نے اس آرا مشین کو زمین کی جانب جھکتے دیکھا جو منوں وزنی لکڑی کو سیکنڈوں میں کاٹ کر رکھ دیتا ہے
پنکھے چھتوں سے لٹکے جھول رہے تھے۔

اچانک یہ منظر دیکھ کر ڈر کے مارے برا حال تھا اور لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے گھروں سے باہر نکل آئے تھے
اس قدر شدت کا زلزلہ پہلے کبھی نا دیکھا تھا
ہر شحض ڈرا اور سہما ہوا تھا
اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت عام بندے کے پاس نا تھا اور موجود موبائل بھی کی پیڈ عام سے تھے۔
فوری ٹی وی آن کیا تو قیامت صغریٰ کا پتہ چلا کہ شمالی علاقہ جات میں صف ماتم بچھ گیا ہے۔ مارے دکھ صدمے کے برا حال تھا۔ اور اوپر سے والدین کی بار بار کالز آ رہی تھیں کہ کیسے ہو کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟
خیر واپسی کا سفر کیا اور گھر پہنچے۔
اس وقت تک میں پاکستان کی معروف مذہبی سماجی جماعت ،جماعت الدعوہ کا کارکن تھا۔  فوری طور پہ اپنے محلے و علاقے سے سامان اکھٹا کرنا شروع کیا۔
واللہ فراغ دلی کی مثال جو میں نے دیکھی اس پہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے تاہم میں ایک چھوٹی سی بات رقم کرتا ہوں۔
ہمارے محلے میں ایک نہایت غریب عورت تھی اس نے ہم نوجوانوں کو سامان اکھٹا کرتے دیکھا تو آواز دے کر اپنے گھر بلا لیا اور صندوق کھول کر بغیر سلے کپڑے،بلکل نئے کھیس دیئے اور کہا کہ زلزلہ زدگان تک پہنچا دو۔
میں نے کہا اماں جی آپ نیا کھیس رکھ لیں اور پرانا دے دیں تو وہ کہنے لگیں کہ پتر تجھے علم نہیں وہ لوگ سب کچھ کھو بیٹھے۔  وہاں سردی بہت ہے تو یہ سب لیجا اور ان کی خدمت کرو ان شاءاللہ رب ہمیں بہت دے گا۔
خیر سامان اکھٹا کیا ٹرک لوڈ کیا۔  اور 5 دن بعد یعنی 13 اکتوبر 2005 کی رات کو ٹرک ڈرائیور،ڈرائیور کے ہیلپر کیساتھ میں اور میرے ایک دوست نے سفر شروع کیا۔
26 گھنٹے ٹرک کی چھٹ پہ سفر کرنے کے بعد مانسہرہ قراقرم ہائی وے پہ بنے بیس کیمپ پہنچے۔  اور سامان جمع کروایا۔
مانسہرہ زلزلے سے کافی حد تک بچا ہوا تھا۔
بیس کیمپ میں راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ اپنی ضرورت کا سامان فی سبیل اللہ لے کر جا رہے تھے اور دعائیں دے رہے تھے۔
خیر مانسہرہ رکے تو زلزلے کے آفٹر شاکش ایسے آئے کہ قصور میں آیا زلزلہ بہت ہلکا محسوس ہوا۔ آفٹر شاکش آنے پہ پہاڑوں سے پتھر گرتے اور یوں لگتا جیسے کوئی عجیب آوازوں میں رو رہا ہے۔

قیامت صغریٰ جو میں نے دیکھی | 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی کچھ جھلکیاں
مظفر آباد میں زلزلے کے بعد ایک خیمہ بستی کا منظر

اگلے دن بیس کیمپ سے ایک ٹرک پہ بیٹھے اور بالاکوٹ کی جانب سفر شروع کیا۔ گڑھی ڈوپٹہ سے آگے بڑھے تو زلزلے کی اصل تباہی کا اندازہ ہوا۔ سڑکیں پھٹی ہوئی تھیں اور ہر طرف ہو کا عالم تھا۔
سفر کرکے بالاکوٹ میں فلاحی کیمپ میں پہنچے تو کچھ دیر آرام کرکے بالاکوٹ شہر کے ملبے پہ چلنا شروع کر دیا۔
اللہ گواہ کہ میں نے تقریباً پورا بالاکوٹ شہر کا ملبہ چھان مارا۔  ماسوائے شاہ اسماعیل شہید کے مقبرے کی دیوار اور جاز ٹاور کے کچھ سلامت نا تھا۔ سب ڈھیر ہوا پڑا تھا۔
اتنے دن گزرنے کے باوجود لوگوں نے عارضی قبریں کھود کر اپنے پیاروں کو ان میں رکھ کر اوپر سٹیل کی چادریں رکھی ہوئی تھیں۔ پاکستان آرمی کیساتھ جماعت الدعوہ ،جماعت اسلامی،الاختر ٹرسٹ،الرشید ٹرسٹ،ایدھی فاؤنڈیشن و دیگر قومی فلاحی تنظیمیں ریکسیو میں مصروف تھیں۔
پاک فوج کے جوان ملبے میں ایک خاص ڈیوائس گراتے اور آواز کی لہروں کی پہچان سے انسانی وجود کی تصدیق کرکے لوگوں کو ملبے سے نکال رہے تھے۔
میں پورا بالاکوٹ شہر گھوما مگر افسوس کہ ملکی و غیر ملکی افسران کے ہیلی کاپٹر آتے ویڈیو بناتے اور چلے جاتے۔
بالاکوٹ شہر اور مضافات میں ہیلی کاپٹروں کا اتنا رش تھا کہ جنگ کا گمان ہوتا تھا مگر مجال جو کسی کے دکھوں کو سمجھ کر کوئی ریکسیو کر رہا ہو۔  ہاں البتہ پاک آرمی کے ہیلی کاپٹرز اور امریکہ کا اپاچی ہیلی کاپٹر مصروف ریکسیو تھا۔
اپاچی ہیلی کاپٹر پاکستان نے لیز پہ لیا تھا اور اس کے ذریعے بھاری مشینری کئی مقامات پہ پہنچائی جاتی میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی۔

وہ بتانے لگا کہ یہ جو سارا ملبے کا ڈھیر ہے یہ ٹرک مارکیٹ تھی اور میں اسکا مالک تھا۔ اب یہ ملبے کا ڈھیر ہے۔ 

ایک دن میں دریائے کنہار کے کنارے واقع ملبے کے ڈھیر پہ چل رہا تھا تو دیکھا ایک کڑیل جوان بے ساختہ رو رہا ہے اور کچھ چھوٹی موٹی چیزیں اکھٹی کر رہا ہے۔
میں اس کے پاس گیا اور اس کی مدد کیلئے چیزیں اکھٹی کرنے لگا۔
اس نے میری طرف دیکھا اور مجھ سے کہنے لگا
جوان کبھی زندگی میں تکبر نا کرنا
کہتا ہے جانتے ہو میں کون ہوں؟
میں نے کہا نہیں میں تو فلاح انسانیت کیلئے آیا ہوں۔
وہ بتانے لگا کہ یہ جو سارا ملبے کا ڈھیر ہے یہ ٹرک مارکیٹ تھی اور میں اسکا مالک تھا۔ اب یہ ملبے کا ڈھیر ہے۔
میں اربوں روپیہ کا مالک تھا اور اب اپنی فیملی کے کئی لوگ دفن کرکے اکیلا دو وقت کی روٹی کی تلاش میں یہ چوٹی موٹی چیزیں اکھٹی کر رہا ہوں تاکہ روٹی خرید سکوں
وہ کہنے لگا جوان 17 سیکنڈ نے مجھ رئیس زادے کو فقیر کر دیا۔  خدارا وقت کا کچھ پتہ نہیں اس لئے کسی پہ ظلم نا کرنا۔
وہ روئے جا رہا تھا اور میں اس کی کڑیل جوان جسم کو حسرت سے دیکھ رہا تھا کہ اس کے کپڑے کتنے مہنگے اور اب یہ کتنا مجبور ہو چکا۔

قیامت صغریٰ جو میں نے دیکھی | 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی کچھ جھلکیاں
8 اکتوبر کے زلزلے کے قیامت خیز مناظر میں سے ایک جھلک

مجھے کئی لوگ ملے جنہوں نے اپنی درد بھری داستانیں سنائی کہ کسطرح انہوں نے اس قیامت صغریٰ کے بعد اپنی ساری ساری فیملیاں ملبے سے نکال کر دفن کی ہیں۔
کوئی ایک فرد زندہ بچا تو کوئی دو تین۔
ہر کسی کی درد ناک ترین داستان تھی جو میں نے سنی بہت سے المناک مناظر میں نے کم سنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھے اور نتیجہ نکالا انسان جتنے مرضی حفاظتی انتظامات کرلے جب وقت آتا ہے تو دیر نہیں لگتی سیکنڈوں میں انسان عرش سے فرش پہ آ جاتا ہے
ملبے میں سکول کے بچوں کی کتابیں میں نے نکال کر پڑھیں اور سوچنے لگا وہ اب ملبے تک زندہ بھی ہونگے کہ لقمہ اجل بن گئے ہونگے تاہم ایک سکول سے چند بچیاں غالباََ دو ہفتوں بعد زندہ نکلیں اور میں اسی پرائیویٹ سکول کے ملبے پہ کئی گھنٹے بیٹھا بچوں کی کتابیں پڑھتا رہا تھا۔
میں نے اتنے زیادہ المناک مناظر دیکھے کہ واللہ یہاں لکھنے سے ان کو شاید نا محسوس کیا جا سکے۔
دعا ہے اللہ تعالی ہم سب کو ان سانحات اور ایسی قیامت صغریٰ  سے محفوظ رکھے آمین۔

تحریر:  غنی محمود قصوری

جانوروں اور پرندوں کا شکار اور اس میں حلال و حرام کی پہچان

4 تبصرے
  1. sklep online کہتے ہیں

    Wow, marvelous weblog format! How lengthy have you been blogging for?

    you made running a blog look easy. The entire glance of your site is great, as
    smartly as the content material! You can see similar: sklep
    online and here sklep online

  2. ecommerce کہتے ہیں

    You made some good points there. I checked on the web for more info about the issue and found most people will go along
    with your views on this website. I saw similar here: najlepszy sklep and also here:
    ecommerce

  3. e-commerce کہتے ہیں

    I love your blog.. very nice colors & theme. Did you make
    this website yourself or did you hire someone to do it
    for you? Plz answer back as I’m looking to create my own blog and
    would like to know where u got this from.
    cheers I saw similar here: Najlepszy sklep

  4. e-commerce کہتے ہیں

    I was more than happy to find this page. I wanted to thank you
    for ones time for this fantastic read!! I definitely
    appreciated every little bit of it and i also have you saved
    to fav to look at new stuff in your website. I saw similar here: Sklep

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.