زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے
مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے
اک تعلق بنے گا اور مجھے
عمر بھر حادثوں سے ڈرنا ہے
پھر ان آنکھوں پہ پڑ گئی نظریں
میں نے سوچا تو تھا سدھرنا ہے
اس نے لڑنا ہے بعد میں مجھ سے
پہلے جی بھر کے پیار کرنا ہے
تُو نے کچھ گفتگو جو کی تو کھلا
تیری صوت و صدا بھی جھرنا ہے
ظلمتیں جس قدر بھی گہری ہوں
آفتاب آخرش ابھرنا ہے
جب تلک وہ نہیں پلٹ آتا
میری آنکھوں میں غم کا دھرنا ہے
دل میں اترا تو یہ خبر بھی نہ تھی
اُس نے اِس دل سے بھی اترنا ہے
میں کہ جرم_وفا کا مارا ہوں
زیست بھر مجھ کو آہ بھرنا ہے
مر بھی جاؤں تو اب کبھی احسن
اس گلی سے نہیں گزرنا ہے
زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے
مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے
اگر آپ محبت پر مزید اردو شاعری پڑھنا چاہتے ہین تو یہ لازمی دیکھیں
[…] […]