
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی! جب ہم کہیں سفر پر نکل جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زمین بہت ہی بڑی ہے. لیکن یہ صرف ہمیں ہی بڑی نظر آتی ہے۔ حقيقت میں اس کائنات میں زمین کی کوٸی اوقات ہی نہیں ہے۔ بلکہ "یونیورس” میں اس کی اوقات ریت کے ایک ذرے سے بھی کم ہے۔ کیونکہ کاٸنات میں بڑے بڑے بڑے "سپر کلسٹرزر” کی کوٸی اوقات نہیں ہے زمین اور نظام شمسی تو بہت دور کی بات ہے۔
ذیل میں جو "تصویر” آپ دیکھ رہے ہیں، یہ ہماری زمین کی تصویر ہے۔ زمین کی یہ تصویر "واجر وان” (voyager 1 ) نے 14 فروری 1990 کو 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے سے لی تھی۔ زمین کی اس تصویر کو پیل بلیو ڈاٹ (Pale blue dot)بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں زمین ایک dot کی مانند ہی نظر آرہی ہے۔ زمین اگر چہ بظاہر سائز میں لامحدود دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اپنے ارد گرد موجود خلا "SPACE” کی وسعت کے مقابلے میں ریت کے ایک ذرے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا. جب کہ روشنی کی جو شعائیں نظر آتی ہیں, وہ دراصل واجر وان کیمرے کی آپٹکس اور سورج کی روشنی کا نتیجہ ہیں۔
زمین کی یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب وائجر ون اپنا بنیادی مشن مکمل کر چکا تھا. اور نظام شمسی سے باہر نکل رہا تھا۔

اس تصویر کیلۓ کارل ساگن کی درخواست پر ناسا کے "ارتھ کنٹرول سینٹر” نے "واجر ون” کو ہدایت کی، کہ وہ اپنے کیمرے کو گھما دے اور اس کے حرکت کرنے سے پہلے ہماری زمین کی آخری تصویر کھینچ لے۔
یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
ہے گرمی آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی
اس نقطے "dot” کو دوبارہ دیکھو۔ وہ یہاں ہے۔ یہ اس کا گھر ہے۔ وہ ہم ہیں۔ اس پر ہر وہ شخص جس سے آپ پیار کرتے ہیں. ہر وہ شخص جسے آپ جانتے ہیں. ہر وہ شخص جس کے بارے میں آپ نے کبھی سنا ہے. ہر وہ انسان جو کبھی تھا، اپنی زندگی گزارتا تھا۔ اسی "dot” پر رہتا ہے اور رہتا تھا۔ آپ کی ساری "دنیا” اس نقطے کے اندر ہی ہے۔ آپ خود سوچیں۔ اس وقت جب واجر وان 23 بلین کلو میٹر دور نکل چکا ہے اتنے فاصلے سے زمین کی تصویر کھینچنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تحریر Tehsin Ullah Khan