یہ محمد کا جو مدینہ ہے یہ تو اَنمول اک نگینہ ہے اور باتیں فضول باتیں ہیں آپ کی بات ہی خزینہ ہے
مدینہ شاعری
سرور دیتی ہے جاں کو گھٹا مدینے کی رُکی نہیں ہے کبھی بھی ہوا مدینے کی تمام عمر جہاں سے خفا رہا ہوں میں تمام عمر ہے مانگی دُعا مدینے
نظر میں طیبہ کا پیارا نگر سجاتے ہیں عطا خدا نے کیا تھا ، سفر سجاتے ہیں وہ پیارا گنبد خضری نگاہوں میں ہے بسا ہم اس کی یاد سے
یا رب ہے دعا تجھ سے ، طیبہ کا نگر دے دے گزرے جو مدینے میں ، وہ شام و سحر دے دے نعتیں جو میں لکھتا ہوں ،
طیبہ نگر سے ہم کو ہوا پیار بے مثال کیونکہ مکین ہیں وہاں سرکار بے مثال سارے ہی یار ان کے بہت خوب ہیں مگر روضے میں ساتھ سوئے ہیں
سوئے طیبہ جونہی قافلہ ہو گیا اشکوں کا بھی رواں سلسلہ ہو گیا جو نبی ﷺ کے نگر کی طرف ہے بنا ہم کو محبوب وہ راستہ ہو گیا فضل
پوچھتے ہو کہ کیا مدینہ ہے ؟ دردِ دل کی دوا مدینہ ہے! مال و عشرت کی کچھ طَلَب ہی نہیں طَلْبِ عاشق سدا مدینہ ہے سر کے بل میں
یہ پیارے سائباں ہیں اور میں ہوں نبی جی میزباں ہیں اور میں ہوں بنا مہمان جن کا آج کل ہوں بہت ہی مہرباں ہیں اور میں ہوں خدا کے
طیبہ کا سفر قسمت میں ہوا، جنت کا سفر آسان ہوا ہم جیسے گناہگاروں کے لیے بخشش کا اک سامان ہوا کتنی ہی دعاؤں کے بدلے، رب نے فرمائی نظر
کھجوروں کی بستی والی سب سے پہلی نشانی ڈھونڈنے کے لیے صحراوں اور کالے پتھروں والی زمینوں کے درمیان گرتے پڑتے اور دوبارہ اٹھتے سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کے